mutah-ki-hurmat

 

مفضل سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے امام جعفر (ع) کو متعہ کے متعلق فرماتے ہوئے سنا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم میں سے ایک شخص عورت کی شرمگاہ کو دیکھے اور پھر اس کا اپنے نیک بھائیوں اور ساتھیوں کے لئے ذکر کرے اور ان کو اس عورت کے ساتھ متعہ کی ترغیب دے


استبصار ج ۳ ص ۷۹
تہذیب الاحکام ج ۷ ص ۲۵۵


عن حفص بن البختري ، عن أبي عبدالله (ع) في الرجل يتزوج البكر متعة ، قال : يكره للعيب على أهلها


حفص بن بحتری سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق (ع) سے اس شخص کے متعلق مروی ہے جو کہ باکرہ عورت کے ساتھ متعیہ کرتا ہے کہ یہ مکروہ ہے اور ناپسندیدہ ہے، کیونکہ یہ اس کے عزیزو اقارب کے لئے عار اور عیب ہے۔


استبصار ج ۳ ص ۷۹
تہذیب الاحکام ج ۷ ص ۲۵۵

أحمد بن محمد بن أبي الحسن عن بعض أصحابنا يرفعه إلى أبي عبد الله (ع) قال: لا تتمتع بالمؤمنة فتذلها

 

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا : مومنہ کے ساتھ متعہ نہ کرو۔ کیونکہ متعہ کی وجہ سے تم اس کو ذلیل و خوار اور بے عزت و بے آبرو کرو گے۔

 

استبصار ج ۳ ص ۷۷
تہذیب الاحکام ج ۷ ص ۲۵۳


عن زيد بن علي عن آبائه عن علي (ع) قال : حرم رسول الله صلى الله عليه وآله لحوم الحمر الاهلية ونكاح المتعة


حضرت زید بن زین العابدین نے اپنے آباء کے واسطہ سے حضرت امیر المومنین حضرت علی (رض) سے روایت کہ ہے کہ رسولِ خدا (ص) نے پالتو گدھوں اور نکاح متعہ کو حرام قرار دیا۔


استبصار ج ۳ ص ۷۷
تہذیب الاحکام ج ۷ ص ۲۵۱


عن محمد بن الحسن بن شمون قال  : كتب أبو الحسن (ع) إلى بعض مواليه لا تلحوا في المتعة إنما عليكم إقامة السنة و لا تشتغلوا بها عن فرشكم و حلائلكم فيكفرن و يدعين على الآمرين لكم بذلك و يلعنونا

 

محمد بن حسن شمعون کہتا ہے کہ امام ابوالحسن (ع) نے اپنے بعض موالی کی طرف لکھا کہ متعہ پر اصرار نہ کرو اور اس میں زیادہ اشتغال و انہماک سے کام نہ لو بلکہ تم پر صرف سنت قائم کرنا لازم ہے۔ لہٰذا اس میں دلچسپی اور انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حرائر اور بیویوں سے منہ ہی نہ موڑ لینا ورنہ کفر کی اور وہ کفر کی اور دین سے بیزاری و برات کی مرتکب ہو جائیں گی اور متعہ کا حکم دینے والے کے خلاف فریادی بن جائیں گی اور (یہ معلوم کر کے کہ متعہ کو حلال ٹھرا کر ان کے ساتھ ہونے والی ذیادتی کا دروازہ ہم نے کھولا ہے تو) وہ ہم پر لعنت بھیجنے لگیں گی۔


عن عمار قال : قال أبو عبدالله ( عليه السلام ) لي ولسليمان بن خالد : قد حرمت عليكما المتعة من قبلي ما دمتما بالمدينة ، لانكما تكثران الدخول علي وأخاف أن تؤخذا فيقال : هؤلاء أصحاب جعفر


عمار سے مروی ہے کہ حضرت امام جعفر (ؑ) نے مجھے اور سلیمان بن خالد کو فرمایا کہ میں اپنی طرف سےتم پر متعہ حرام قرار دیتا ہوں جب تک تم مدینہ منورہ میں ہو کیونکہ تم بہت زیادہ میرے پاس آمد و رفت رکھتے ہو اور مجھے خطرہ ہے کہ تم متعہ کرتے ہوئے پکڑے جاو گے۔ پس کہا جائے گا یہ امام جعفر صادق کے ساتھ اور ان کے متعلقین و متعقدین ہیں (جو اس فعل شنیع اور امر قبیح کا ارتکاب کرتے ہیں اور انہیں شرم اور عار محسوس نہیں ہوتی)
فروع کافی ج ۳ ص ۱۹۸


جاء عبد الله بن عمير الليثي إلى أبي جعفر عليه السلام فقال له: ما تقول في متعة النساء؟ فقال: أحلَّها الله في كتابه وعلى لسان نبيه (ص)، فهي حلال إلى يوم القيامة. فقال: يا أبا جعفر مثلك يقول هذا وقد حرَّمها عمر ونهى عنها؟! فقال: وإن كان فعل. قال: وإني أعيذك بالله من ذلك أن تحل شيئاً حرَّمه عمر. قال: فقال له: فأنت على قول صاحبك، وأنا على قول رسول الله (ص)، فهلم أُلاعِنُك أن القول ما قال رسول الله (ص)، وأن الباطل ما قال صاحبك. قال: فأقبل عبد الله ابن عمير فقال: يسرُّك أن نساءك وبناتك وأخواتك وبنات عمك يفعلن ذلك ؟ قال: فأعرض عنه أبو جعفر عليه السلام حين ذكر نساءه وبنات عمه


عبداللہ بن عمر لیثی امام باقر (ع) کے پاس حاضر ہوا اور متعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : اسے اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا ہے اور زبان ِ نبی (ص) پر بھی اسے حلال ٹھرایا ہے لہٰذا یہ قیامت تک کے لئے حلال اور مباح ہے۔ تو عبداللہ لیثن نے کہا کہ آپ جیسا شخص یہ فتوٰی دے رہا ہے حالانکہ حضرت عمربن الخطاب (رض) نے اسے حرام ٹھرایا ہے۔ آپ نے کہا اگرچہ عمر بن الخطاب نے حرام ٹھرایا ہے میں تو اسے حلال سمجھتا ہوں
عبداللہ نے کہا میں تمہیں اللہ تعالٰی کے نام کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ تم ان کے حرام قرار دیے ہوئے فعل کو حلال مت ٹھراو تو امام موصوف نے فرمایا : تو تم اپنے صاحب کے قول پر قائم رہو اور میں رسول اللہ (ص) کے قول پر کاربند رہتا ہوں ، میں تمہارے ساتھ مباہلہ کرتا ہوں کیونکہ اولٰی و انسب وہی ہے جو رسول اللہ (ص) نے فرمایا اور باطل وہ ہے جو تیرے صاحب نےکہا یہ سن کر عبداللہ لیثی نے کہا کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تمہاری عورتیں ، بچیاں ، بہنیں اور بھتیجیاں یہ فعل کریں۔ تو امام باقر نے عبداللہ لیثی سے منہ پھیر لیا جب اس نے آپ کی عورتوں اور بھتیجیوں کا ذکر کیا اور اسے کوئی جواب نہ دیا۔


فروع کافی ج ۲ ص ۱۹۰
تہذیب الاحکام ج ۷ ص ۲۵۰

 

 

 

Search site