افطاری کا وقت

05/02/2017 04:42

افطاری کا وقت

 

 

افطاری کے وقت پر اہلسنت کے دلائل انتہائی عمدہ ہیں، اس حوالے سے قرآن کریم کی آیت (ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ) پھر تم رات تك روزہ پورا كرو (البقرۃ) کے متعلق ابن کثیر فرماتے ہیں " يقتضي الإفطار عند غُرُوب الشمس حكمًا شرعيًا (تفسیر القرآن العظیم) يہ اس كا تقاضا كرتى ہے كہ شرعى حكم كے مطابق غروب شمس كے وقت روزہ افطار كيا جائے. اور اللیل کے متعلق قاموس المحیط میں لکھا ہے "اللَّيْلُ : من مَغْرِبِ الشمسِ إلى طُلوعِ الفَجْرِ الصادِقِ أو الشمس" الليل: سورغ غروب ہونے سے ليكر فجر صادق طلوع ہونے يا سورج طلوع ہونے كو رات كہا جاتا ہے (القاموس المحیط) 



اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا ، وَغَرَبَتْ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ یعنی جب اس طرف سے رات آ جائے اور اس طرف سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار كا روزہ افطار ہو جاتا ہے (البخاری) اور اس حدیث کے راوی حضرت عمر ہیں۔ اور موطا کی جس روایت میں لکھا ہے کہ حضرت عمر پہلے نماز پڑھتے تھے، پھر روزہ افطار کرتے تھے، تو جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر نہیں، بلکہ تاخیر وہ ہے جو شیعہ کرتے ہیں، یعنی نہ ہی نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی روزہ افطار کرتے ہیں، بلکہ یونہی دس پندرہ منٹ تک انتظار کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں حمید بن عبد الرحمن اور حضرت عمر کے درمیان انقطاع ہے۔ نیز عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ كان أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - أعجل الناس إفطارا یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سب سے پہلے افطاری کرتے (السنن الکبری)



اس کے علاوہ اہل تشیع کی فروع من الکافی میں لکھا ہے کہ (وقت المغرب اذا غاب القرص) یعنی جب سورج کی ٹکیہ غائب ہو جائے تو مغرب کا وقت آگیا (فروع من الکافی) اور مغرب کی نماز کا وقت اور افطاری کا وقت ایک ہی ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں لکھا ہے (وصلوا بھم المغرب حین یفطر الصائم) یعنی جب روزہ دار افطاری کرتا ہے، تو نماز مغرب پڑھائی جائے (نہج البلاغہ) اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ قرآن کریم اور فریقین کی احادیث و روایات کے خلاف افطاری میں بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں۔

 

 

Search site