شیعہ کی کتابوں میں

 

محمد بن علي بن الحسين قال: دخل أبو جعفر الباقر ( عليه السلام ) الخلاء فوجد لقمة خبز في القذر، فأخذها، وغسلها، ودفعها إلى مملوك معه، فقال: تكون معك لآكلها إذا خرجت، فلما خرج ( عليه السلام ) قال للمملوك: أين اللقمة؟ فقال: أكلتها يا بن رسول الله، فقال ( عليه السلام ): إنها ما استقرت في جوف أحد إلا وجبت له الجنة، فاذهب، فأنت حر، فإني أكره أن أستخدم رجلا من أهل الجنة

 

امام باقر (ع) بیت الخلاء میں داخل ہوئے ، گندگی پر ایک لقمہ روٹی کا پڑا ہوا دیکھا ، اٹھایا ، اس کو دھویا اور اپنے غلام کو دیا جو ان کے ساتھ تھا، اور فرمایا ، اس کو اپنے پاس رکھو ، میں بیت الخلاء سے آوں گا تو مجھے دینا میں کھا لوں گا۔ مگر غلام نے کھا لیا ، آپ جب بیت الخلاء سے نکلے ، لقمہ مانگا تو غلام نے کہا کہ وہ میں نے کھا لیا تو اس پر فرمایا کہ جس پیٹ میں وہ لقمہ گیا اس پر جنت واجب ہوگئی ۔ جا تو آزاد ہے میں جنت والے سے خدمت لینا نہیں چاہتا۔

 

وسائل الشیعہ ، باب أن من دخل الخلاء فوجد لقمة خبز في القذر

من لا یحضرہ الفقیہ ، ج ۱ ،ص ۱۸

 

محمد بن يعقوب ، عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، عن اسماعيل بن همام ، عن علي بن جعفر قال : سألت أبا الحسن موسى ( عليه السلام ) عن الرجل يقبل قبل امرأته ؟ قال : لا بأس

 

علی بن جعفر نے امام موسٰی کاظم سے سوال کیا کہ مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ کو چوم سکتا ہے؟ فرمایا کوئ حرج نہیں

 

تھذیب الاحکام ج ۷ ص ۴۱۳

وسائل الشیعہ باب جواز تقبيل الرجل قبل زوجته ومباشرته

 

 

عن عبيد الله الدابقي قال: دخلت حماما بالمدينة فإذا شيخ كبيرو هو قيم الحمام فقلت: يا شيخ لمن هذا الحمام؟ فقال: لابي جعفر محمد بن علي بن الحسين عليهم السلام فقلت: كان يدخله؟ قال: نعم، فقلت: كيف كان يصنع؟ قال: كان يدخل فيبدء فيطلي عانته وما يليها ثم يلف على طرف إحليله ويدعوني فاطلي سائر بدنه، فقلت له يوما من الايام: الذي تكره أن أراه قد رأيته، فقال: كلا إن النورة سترة

 

عبیداللہ الدابقی سے مروی ہے کہ میں مدینہ کے ایک حمام میں گیا۔ میری نظر ایک بوڑھے پر پڑی جو حمام کا نگران تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ حمام کس کا ہے تو اس نے کہا یہ امام باقر کا ہے۔ میں نے کہا وہ خود بھی آتے ہیں یہاں پر؟ اس نے کہا جی ہاں آتے ہیں۔ میں نے کہا وہ یہاں آ کر کیا کرتے ہیں۔ تو اس نے کہا وہ حمام میں داخل ہوتے ہی اپنی شرم گاہ پر طلا لگا لیتے ہیں۔ بعد ازاں آلہ تناسل پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔ اور پھر مجھے بلا لیتے ہیں تو میں ان کے باقی جسم پر طلا لگا لیتا ہوں۔ میں نے ایک دن ان سے کہا ، حضرت جس کو آپ دیکھنا پسند نہیں فرماتے میں تو اس کو دیکھ لیتا ہوں ، فرمایا ! ہرگز نہیں جب چونا لگا ہوا ہو تو پردہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اے عبداللہ تجھے چونا نظر آتا ہے مگر آلہ تناسل تو مستور ہوتا ہے۔

 

الکافی ، باب الحمام

 

 

 

 

عن ابان بن تغلب قال: سمعت ابا عبد الله عليه السلام يقول: كان ابي عليه السلام يفتي في زمن بني امية أن ما قتل البازي والصقر فهو حلال وكان يتقيهم وان لا أتقيهم وهو حرام ما قتل

 

 

ابان بن تغلب سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا : میرے والد امام باقر بنو امیہ کے دور میں تقیہ کرتے ہوئے یہ فتوٰی دیتے تھے کہ جس جانور کو باز یا شکرہ مار ڈالے وہ حلال ہے۔ میں چونکہ تقیہ نہیں کرتا اس لئے میرا فتوٰی یہی ہے کہ ان دونوں کا مارا ہوا جانور حرام ہے۔

 

 

تهذيب الأحكام ج ۹ ص ۳۲

فروع کافی ج ۶ ص ۲۰۸

 

 

 

علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى، عن بعض أصحابنا، عن أبي الحسن موسى (عليه السلام) قال: إن الله عزوجل غضب على الشيعة

 

 

امام موسٰی کاظم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : بے شک شیعہ پر اللہ تعالٰی کی پھٹکار ہوئی۔

 

 

اصول کافی ج ۱ ، ص ۲۸۶

 

 

عن أبي بصير قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: اصول الكفر ثلاثة: الحرص، والاستكبار، والحسد، فأما الحرص فان آدم عليه السلام حين نهي عن الشجرة، حمله الحرص على أن أكل منها

 

ابوبصیر سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا : اصولِ کفر تین ہیں ۔ حرص ، تکبر اور حسد۔ حرص (یعنی پہلا اصول کفر) تو حضرت آدم (علیہ السلام) میں تھا۔ جب انہیں درخت کے کھانے سے منع کیا گیا تو حرص نے انہیں درخت کے کھانے پر ابھارا۔

 

اصول کافی ج ۲ ص ۲۸۹

 

 

 

 

حمل ما اوصیائے پیغمبراں درشکم مادر نمی باشد پہلو مے باشد و از رحم بیروں نمی آئیم بلکہ ازران مادراں فرو دمے آئیم زیر اگہ مانور خدائے تعالٰی ایم

 

 

حضرت نے فرمایا کہ ہم اوصیائے پیغمبرانِ خدا کا حمل شکم میں نہیں ہوتا بلکہ پہلو میں ہوتا ہے اور نہ ہم رحم سے پیدا ہوتے ہیں بلکہ ماں کی ران سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ خدا تعالٰی کے انوار ہیں۔

 

حق الیقین ج ۱ ص ۳۵۴

 

 

 

 

 

Search site