امام معصوم لیکن امام کا قاضی گمراہ

15/01/2019 21:46

شریح القاضی کو حضرت عمر بن خطاب نے کوفہ میں قاضی مقرر کیا تھا۔ حضرت علی نے انہیں ان کے منصب سے نہیں ہٹایا، حالانکہ یہ بہت سے مسائل میں حضرت علی کی مخالفت کیا کرتا تھا جیسا کہ ملا باقر مجلسی بحار الانوار میں لکھتا ہے ( وأقر علي عليه السلام شريحا على القضاء مع مخالفته له في مسائل كثيرة من الفقه ) ۔ ظاہر ہے کہ اگر حضرت علی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دیتا ہوگا تو شیعوں کے نزدیک غلط فیصلہ ہی دیتا ہوگا۔ اس کے باوجود حضرت علی نے ان کو قضاۃ کے منصب سے نہ ہٹایا تواس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی نے یہ گوارا کر لیا کہ ان کی حکومت میں غلط فیصلے دیئے جائیں۔ پھر ان کے معصوم ہونے کا فائدہ ہی کیا ہوا؟ اور خلفاء ثلاثہ کے غیر معصوم ہونے سے کونسا نقصان ہوا جو حضرت علی کے معصوم ہونے سے نہ ہوسکا؟ اگر ان کی حکومت میں غلط فیصلے دیئے جاتے رہے تو یہاں بھی غلط فیصلے دیئے جاتے رہے اور قاضی اپنے منصب پر ہی فائز رہا۔ بلکہ قاضی شریح کو بعض شیعہ علماء ملعون بھی قرار دیتے ہیں کما فی طرائف المقال للبروجرودی (شريح القاضي ملعون)۔ پس جب معصوم کا قاضی ملعون ہو اور لوگوں کے جھگڑے معصوم امام کا ملعون قاضی نمٹائے تو ایسے معصوم کی حکومت میں اور تاتاریوں کی حکومت میں کیا فرق ہوا؟ اس سے اچھے تو خلفاء ثلاثہ ہی رہے جو اپنے فہم کے مطابق کسی قاضی کے فیصلوں کو قرآن و سنت کے برخلاف دیکھتے تو ان کو منصب سے ہی ہٹا دیتے۔ یہ سب باتیں میں نے شیعوں کے نظریہ امامت کے حوالے سے کہی ہیں، ورنہ ہمارے نزدیک حضرت علی ایسے نہیں تھے کہ کسی ملعون کو قاضی رکھتے اور اس کے فیصلوں کے غلط ہونے کا یقین ہونے کے باوجود اس کو منصب سے نہ ہٹاتے۔ بلکہ حضرت علی تو خود بھی بہترین قاضی تھے، اور اپنا قاضی بھی اس کو رکھتے تھے جس پر انہیں اعتماد ہوتا تھا۔

Search site