نہج البلاغہ کے ترجمے میں دھاندلی

15/01/2019 21:51

نہج البلاغہ میں لکھا ہے

وقال له بعض اليهود: ما دَفَنْتُم نَبِيَّكُم حتّى اختلفتم فيه! فقال عليه السلام له: إِنَّمَا اخْتَلَفْنَا عَنْهُ لاَ فِيهِ، وَلكِنَّكُمْ مَا جَفَّتْ أَرْجُلُكُمْ مِنَ الْبَحْرِ حَتَّى قُلْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ: ﴿اجْعَلْ لَنَا إلهاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾.

کسی یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تم لوگوں نے نبی کو ابھی دفن بھی نہیں کیا تھا کہ اس کے بارے میں اختلاف میں پڑھ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، ہمارا اختلاف ان کے بارے میں نہیں تھا، بلکہ ان سے جو ہمیں پہنچا، اس میں اختلاف ہوا۔ لیکن تم لوگ تو وہ لوگ ہوں کہ ابھی دریائے نیل سے نکلے تمہارے پاؤں بھی خشک نہ ہوئے تھے کہ تم لوگون نے اپنے نبی سے کہا "ہمارے لئے بھی ایک ایسا خدا بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے خدا ہیں۔ تو موسیٰ نے کہا کہ بے شک، تم ایک جاہل قوم ہو۔"

لیکن دیکھئے تو سہی، شیعہ مولوی اس کا کیا ترجمہ کر رہے ہیں۔

ایک یہودی نے آپ سے کہا کہ ابھی تم لوگوں نے اپنے نبی کو دفن نہیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں اختلاف شروع کر دیا۔ حضرت نے فرمایا ہم نے ان کے بارے میں اختلاف نہیں کیا بلکہ ان کے بعد جانشینی کے سلسلہ میں اختلاف ہوا۔ مگر تم تو وہ ہو کہ ابھی دریائے نیل سے نکل کر تمہارے پیر خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نبی سے کہنے لگے ہمارے لئے بھی ایک ایسا خدا بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے خدا ہیں۔ تو موسیٰ نے کہا کہ بے شک تم ایک جاہل قوم ہو۔

نہج البلاغہ ، مترجم مفتی جعفر حسین، ص 787

مجھے یہاں جانشینی کے بارے میں کوئی الفاظ عربی متن میں نہ ملے، تو ابن میثم کی شرح اٹھائی، اس نے لکھا ہے

أراد انا لم نختلف في نبوته ولم نشك في ذلك وإنما وقع خلافنا عنه اي بسبب اشتباه بعض ما جاء عنه من كتاب وسنة على من لا يعلم ذلك منا

ان کی مراد یہ تھی کہ ہم نے نبوت میں اختلاف نہیں کیا، اور نہ اس میں شک کیا، بلکہ ہم میں اختلاف اس میں آیا جو ان سے ہمیں پہنچا، یعنی کتاب و سنت میں اس اشتباہ کی وجہ سے جو بعض ان لوگوں کو ہوا جن کو علم نہ تھا۔

نہج البلاغہ، شرح ابن میثم، ص 373

یہ روایت اس لئے اہم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی کو جواب دے رہے ہیں کہ ہم میں نبوت کے متعلق کسی کو شک بھی نہیں ہوا، لیکن ہاں کتاب و سنت میں لا علمی کی وجہ سے بعض لوگوں کو اشتباہ ضرور ہوا جس کی وجہ سے ہم میں اختلاف ہوا.

لیکن اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ شیعوں والا ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ وہ کہتے ہاں ہم بھی (معاذ اللہ) ایسے ہی بے غیرت قوم نکلے جیسے کہ تم تھے بلکہ تم سے بھی دو قدم آگے نکلے۔ ہم نے تو نبی کو زہر بھی دیا، اس کی بیٹی کا گھر بھی جلایا، اور اس کی تمام باتیں بھی جھٹلا دیں۔ اس کی کتاب میں بھی تحریف کر دی اور اس کی سنتوں کو بھی بدل دیا۔

معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہم اہلسنت والا ہی تھا۔ اسی وجہ سے شیعہ علماء نے اس روایت کا ترجمہ ہی بدل دیا۔ اور جانشینی کا معاملہ اس میں داخل کر دیا جس کا یہاں پر تذکرہ بھی نہیں تھا۔

 

 

Search site