شیعی عقیدہ امامت اور شیعی روایات

15/01/2019 22:33

نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا
ما اعرف شيئا تجهله ولا ادلك على امر الا تعرفه انك لتعلم ما نعلم ما سبقناك الى شيء فنخبرك ولا خلونا بشيء فنبلغكه وقد رايت كما راينا وسمعت كما سمعنا وصحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما صحبنا
میں ایسی کوئی بات نہیں جانتا، جس سے تم بے خبر ہو، اور نہ کوئی ایسی چیز بتانے والا ہوں کہ جس کا تم کو علم نہ ہو۔ جو تم جانتے ہو، وہ ہم جانتے ہیں۔ نہ تم سے پہلے ہمیں کسی چیز کی خبر تھی کہ تمہیں بتائیں، اور نہ علیحدگی میں کچھ سنا ہے کہ تم تک پہنچائیں۔ جیسے ہم نے دیکھا، ویسے تم نے بھی دیکھا اور جس طرح ہم نے سنا، تم نے بھی سنا۔ جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے، ویسے ہی تم کو بھی ان کی صحبت میسر ہوئی۔
نہج البلاغہ، خطبہ 162، ص 379

اس خطبہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اقرار کر رہے ہیں کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے خفیہ ملاقاتوں میں کوئی خفیہ علم منتقل نہیں کیا جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مزید کہہ رہے ہیں کہ ہمارا علم بھی تمہارے علم جیسا ہے، جس طرح تم نے دیکھا، ہم نے بھی دیکھا، اور جس طرح تم نے سنا، ہم نے بھی سنا۔ یہ خطبہ ان شیعوں کے لئے مقام عبرت ہے جو کہتے ہیں کہ ان کے ائمہ غیب کا علم رکھتے ہیں۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ غیب کا علم رکھتے تو کیا ایسا کہتے؟ ہرگز نہیں۔

ایک اور مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
وَلكِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ جَعَلَ رُسُلَهُ أُولِي قُوَّة فِي عَزَائِمِهِمْ، وَضَعَفَةً فِيَما تَرَى الاْعْيُنُ مِنْ حَالاَتِهِمْ، مَعَ قَنَاعَة تَمْلاُ الْقُلُوبَ وَالْعُيُونَ غِنىً، وَخَصَاصَة تَمْلاَ الاْبْصَارَ وَالاْسْمَاعَ أَذىً
وَلَوْ كَانَتِ الاْنْبِيَاءُ أَهْلَ قُوَّة لاَ تُرَامُ، وَعِزَّة لاَ تُضَامُ، وَمُلْك تُمَدُّ نُحْوَهُ أَعْنَاقُ الرِّجَالِ، وَتُشَدُّ إِلَيْهِ عُقَدُ الرِّحَالِ، لَكَانَ ذلِكَ أَهْوَنَ عَلَى الْخَلْقِ فِي الاْعَتِبَارِ، وَأَبْعَدَ لَهُمْ مِنَ الاْسْتَكْبَارِ، وَلامَنُوا عَنْ رَهْبَة قَاهِرَة لَهْمْ، أَوْ رَغْبَة مَائِلَة بِهِمْ، فَكَانَتِ النِّيَّاتُ مُشْتَرَكَةً، وَالْحَسَنَاتُ مُقْتَسَمَةً. وَلكِنَّ اللهَ سْبْحَانَهُ أَرَادَ أَنْ يَكُونَ الاْتِّبَاعُ لِرُسُلِهِ، وَالْتَّصْدِيقُ بِكُتُبِهِ، وَالْخُشُوعُ لِوَجْهِهِ، وَالاْسْتِكَانَةُ لاِمْرِهِ، وَالاْسْتِسْلاَمُ لِطَاعَتِهِ، أُمُوراً لَهُ خَاصَّةً، لاَ تَشُوبُهَا مِنْ غَيْرِهَا شَائِبَةٌ، وَكُلَّمَا كَانَتِ الْبلْوَى وَالاْخْتِبَارُ أَعْظَمَ كَانَتِ الْمَثُوبَةُ وَالْجَزَاءُ أَجْزَلَ.
اللہ سبحانہ اپنے رسولون کو ارادوں کی قوی اور آنکھوں کو دکھائی دینے والی ظاہری حالات میں کمزوری و ناتواں قرار دیتا ہے اور انہیں ایسی قناعت سے سرفراز کرتا ہے جو دلوں اور آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہے اور ایسا افلاس ان کے دامن سے وابستہ کر دیتا ہے کہ جس سے آنکھوں کو دیکھ کر کانوں کو سن کر اذیت ہوتی ہے۔ اگر انبیاء ایسی قوت و طاقت رکھتے کہ جسے دبانے کا قصد و ارادہ بھی نہ ہو سکتا ہوتا اور ایسا تسلط و اقتدار رکھتے کہ جس سے تعدی ممکن ہی نہ ہوتی، اور ایسی سلطنت کے مالک ہوتے کہ جس کی طرف لوگوں کی گردنیں مڑتیں اور اس کے رخ پر سواریوں کے پالان کسے جاتے تو یہ چیز نصیحت پذیری کے لئے بڑی آسان اور اس سے انکار و سرتابی بہت بعید ہوتی۔ اور لوگ چھائے ہوئے خوف یا مائل کرنے والے اسباب رغبت کی بناء پر ایمان لے آتے تو اس صورت میں ان کی منتیں مشترک اور نیک عمل بٹے ہوئے ہوتے لیکن اللہ سبحانہ نے تو یہ چاہا کہ اس کے پیغمبروں کا اتباع اس کی کتابوں کی تصدیق اور اس کے سامنے فروتنی اس کے احکام کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت یہ سب چیزیں اسی کے لئے مخصوص ہوں اور ان میں کوئی دوسرا شائبہ تک نہ ہو اور جتنی آزمائش کڑی ہوگی اتنا ہی اجر و ثواب زیادہ ہوگا۔
نہج البلاغہ، خطبہ 190، ص 459
اس خطبے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولایت تکوینی کے شیعی نظریہ کے حصے بخرے کر دیئے ہیں۔ انہوں نے صاف فرما دیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام کو بھی ولایت تکوینی عطا نہیں کی، اور انہوں نے ایسی افلاس کی زندگی گزاری کہ جس کو جاننے سے دل کو دکھ پہنچتا ہے۔ اور اگر ان کو ولایت تکوینی حاصل ہوتی تو لوگوں کو انکار کی جرات ہی نہ ہوتی۔ 
ویسے شیعہ ائمہ کی ولایت تکوینی بھی نہایت مضحکہ خیز ہے، یعنی ایک طرف تو ان کو یہ اخیتار تھا کہ زمین ادھر سے ادھر کر دیں، اور دوسری طرف ان کے امام کی وجہ غیبت حکمرانوں کا خوف ہے۔ کسی بھائی نے صحیح کہا تھا کہ شیعہ عقیدہ امامت پل بھر میں تولہ اور پل بھر میں ماشہ ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ تو ایسے شخص تھے کہ انہوں نے ایک دفعہ لوگوں کو غلطی سے بغیر وضو کے نماز پڑھا دی۔ اور جب ان کو علم ہوا تو منادی کو بھیجا کہ اعلان کرے تاکہ لوگ اپنی نمازیں لوٹا دیں۔ چنانچہ شیخ طوسی اپنی کتاب الاستبصار میں روایت نقل کرتے ہیں کہ 
علي بن الحكم عن عبد الرحمن العرزمي عن أبي عبد الله (ع) قال: صلى علي (ع) بالناس على غير طهر وكانت الظهر فخرج مناديه ان أمير المؤمنين (ع) صلى على غير طهر فأعيدوا وليبلغ الشاهد الغائب

عبد الرحمن عرزمی کا بیان ہے کہ امام جعفر نے فرمایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جبکہ وہ وضو سے نہیں تھے۔ اور ظہر کا وقت تھا، تو ایک منادی نے اعلان کیا کہ جناب امیر المومنین نے بغیر وضو کے نماز پڑھائی ہے، پس سب اپنی نماز لوٹا دو، اور یہاں پر موجود لوگ ان کو بتا دیں جو یہاں حاضر نہیں۔
الاستبصار، ج 1، ص 433
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں، اور عبد الرحمن عرزمی امام جعفر کا صحابی ہے، لہذا سند متصل ہے۔
ایسے جرات مند صحابی کو سلام۔ اس روایت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کچھ کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ اس بات پر مہر ثبت ہوتی ہے کہ وہ لومۃ لائم سے ہرگز ڈرنے والے نہیں تھے۔

ایک اور مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
فلا تكفو عن مقالة بحق او مشورة بعدل فاني لست في نفسي بفوق ان اخطيء ولا آمن ذلك من فعلي الا ان يكفي الله من نفسي ما هو املك به مني
تم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو۔ کیونکہ میں تو اپنے کو اس سے بالاتر نہیں سمجھتا کہ خطا کروں اور نہ اپنے کسی کام کو لغزش سے محفوظ سمجھتا ہوں مگر یہ کہ خدا میرے نفس کو اس سے بچائے کہ جس پر وہ مجھ سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔
نہج البلاغہ ، خطبہ 214، ص 522

شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ کرام علم غیب کے مالک تھے۔ لیکن ملاحظہ کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود کیا فرماتے ہیں

فوالله ما كان يلقي في روعي و لا يخطر ببالي ان العرب تزعج هذا الامر بعده صلى الله عليه وآله عن اهل بيته وانهم منحوه عني من بعده
میرے دل میں یہ خیال تک نہ گزرا تھا کہ پیغمبر ﷺ کے وصال کے بعد عرب خلافت کا رخ ان کے اہل بیت سے موڑ دیں گے، اور نہ یہ کہ ان کے بعد اسے مجھ سے ہٹا دیں گے۔
نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 62، ص 677

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرما دیا تھا کہ میرے بعد لوگ تمہاری امامت سے انکار کر دیں گے اور اس وقت تم نے صبر سے کام لینا ہے۔ یہ روایت تو ظاہر کر رہی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا خیال تک نہ گزرا تھا۔ مزیدیکہ علم غیب جس کا شیعہ دعوی کرتے ہیں، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوتا تو انکے دل میں اس کا خیال تو ضرور گزرتا، وہ اس بات پر ذرا بھر حیران نہ ہوتے کہ لوگوں نے ان کو خلافت کے منصب سے ہٹا دیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ جھوٹ کے پاؤں کہاں ہوتے ہیں۔ 
اور نہج البلاغہ شیعوں کی ایسی کتاب ہے کہ جس پر شیعہ بہت ناز کرتے ہیں، اور اس کا بہت دفاع کرتے ہیں۔ 
شیعوں کے آیت اللہ اور سید العلماء سید علی نقی النقوی نے نہج البلاغہ کے ترجمے میں اپنے مقدمے میں لکھا ہے:
ہمارے نزدیک اس کتاب کے مندرجات کی نسبت امیر المومنین کی جانب اسی حد تک ثابت ہے جیسے صحیفہ کاملہ کی نسبت امام زین العابدین کی جانب یا کتب اربعہ کی نسبت ان کے مصنفین کی طرف یا معلقات سبعہ کی نسبت ان کے نظم کرنے والوں کی جانب رہ گیا، خصوصی عبارات اور الفاظ میں سے ہر ایک کی نسبت اطمینان و اسلوب کلام اور انداز بیان سے وابستہ ہے اور ان مندرجات کی مطابقت کے اعتبار سے ہے۔ ان ماخذوں کے ساتھ جو صحیح طور پر ہمارے یہاں مسلم الثبوت ہیں اصطلاحی حیثیت سے قدماء کی تعریف کے مطابق صحت کے خبر کے لئے وثوق بالصدور کو کافی سمجھتے ہیں۔ ان شرائط کے بعد اس کا ہر جزء صحیح کی تعریف میں داخل ہے اور متاخرین کی اصطلاح کے مطابق جو صحت کو باعتبار صفات راوی قرار دیتے ہیں۔ نہج البلاغہ کے مندرجات کو مرسلات کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ ابن ابی عمیر اور بعض جلیل القدر اصحاب کے بارے میں علماء نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ ان تک جب خبر کی صحت ثابت ہو جائے تو پھر ان کے آگے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون راوی ہے۔ اس لئے کہ ان کا نقل کرنا خود اس کے اعتبار کی دلیل ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ مرسلات ابن ابی عمیر حکم مسند میں ہیں۔ اس بناء پر خود جناب سید رضی اعلی اللہ مقامہ کی جلالتِ قدر جرور اسے عام مرسلات سے ممتاز کر دیتی ہے۔
نہج البلاغہ، ترجمہ و حواشی مفتی جعفر حسین، ص 54-55

 

روایت کچھ زیادہ ہی دلچسپ ہے، اور جو امور اس سے ثابت ہوتے ہیں، وہ بھی بہت دلچسپ ہیں۔ روایت کافی لمبی ہے، لھذا میں اس کو ٹکڑوں میں نقل کرتا ہوں۔

ملاحظہ کریں۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ وَ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ جَمِيعاً عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) عَنِ الْجَدِّ فَقَالَ مَا أَجِدُ أَحَداً قَالَ فِيهِ إِلَّا بِرَأْيِهِ إِلَّا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ( عليه السلام ) قُلْتُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ فَمَا قَالَ فِيهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ( عليه السلام ) قَالَ إِذَا كَانَ غَداً فَالْقَنِي حَتَّى أُقْرِئَكَهُ فِي كِتَابٍ قُلْتُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ حَدِّثْنِي فَإِنَّ حَدِيثَكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تُقْرِئَنِيهِ فِي كِتَابٍ فَقَالَ لِيَ الثَّانِيَةَ اسْمَعْ مَا أَقُولُ لَكَ إِذَا كَانَ غَداً فَالْقَنِي حَتَّى أُقْرِئَكَهُ فِي كِتَابٍ

زرارہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے امام باقر سے دادا کی میراث کے بارے میں پوچھا تو امام نے فرمایا میں سوا امیر المومنین کے اور کسی کو نہیں پاتا کہ اس مسئلہ میں اس نے اپنی رائے نہ بیان کی ہو۔ میں نے کہا اللہ آپ کی اصلاح کرے، بتائیے کہ امیر المومنین نے اس کے متعلق کیا فرمایا ہے۔ امام نے کہا کہ کل مجھ سے ملنا تو تمہیں یہ مسئلہ ایک کتاب میں پڑھا دوں گا۔ میں نے کہا اللہ آپ کی اصلاح کرے مجھ سے آپ زبانی بیان کیجئے۔ آپ کی بات مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ مجھے آپ کسی کتاب میں یہ مسئلہ پڑھائیں۔ امام نے مجھ سے دوبارہ کہا کہ جو تم سے کہتا ہوں اس کو سنو۔ کل مجھ سے ملناتاکہ میں تم کو ایک کتاب پڑھا دوں۔

فَأَتَيْتُهُ مِنَ الْغَدِ بَعْدَ الظُّهْرِ وَ كَانَتْ سَاعَتِيَ الَّتِي كُنْتُ أَخْلُو بِهِ فِيهَا بَيْنَ الظُّهْرِ وَ الْعَصْرِ وَ كُنْتُ أَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَهُ إِلَّا خَالِياً خَشْيَةَ أَنْ يُفْتِيَنِي مِنْ أَجْلِ مَنْ يَحْضُرُهُ بِالتَّقِيَّةِ فَلَمَّا دَخَلْتُ عَلَيْهِ أَقْبَلَ عَلَى ابْنِهِ جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) فَقَالَ لَهُ أَقْرِئْ زُرَارَةَ صَحِيفَةَ الْفَرَائِضِ ثُمَّ قَامَ لِيَنَامَ

چنانچہ میں ان کے پاس دوسرے دن بعد ظہرگیا۔ اور ظہر عصر کے درمیان کا وقت وہ تھا کہ میں ان سے تنہائ کی ملاقات کیا کرتا تھا۔ میں اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ بغیر تنہائی کے ان سے کچھ پوچھوں اس خوف سے کہ کہیں مجھے وہ تقیہ کے سات فتوٰی نہ دے دیں، بہ سبب ان لوگوں کے جو اس وقت موجود ہوں۔ چنانچہ جب میں امام باقر کے پاس پہنچا تو وہ اپنے بیٹے جعفر کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ زرارہ کو علم فرائض کا صحیفہ پڑھا دو۔ اس کو بعد وہ سونے کے لئے اٹھ گئے۔

فَبَقِيتُ أَنَا وَ جَعْفَرٌ ( عليه السلام ) فِي الْبَيْتِ فَقَامَ فَأَخْرَجَ إِلَيَّ صَحِيفَةً مِثْلَ فَخِذِ الْبَعِيرِ فَقَالَ لَسْتُ أُقْرِئُكَهَا حَتَّى تَجْعَلَ لِي عَلَيْكَ اللَّهَ أَنْ لَا تُحَدِّثَ بِمَا تَقْرَأُ فِيهَا أَحَداً أَبَداً حَتَّى آذَنَ لَكَ وَ لَمْ يَقُلْ حَتَّى يَأْذَنَ لَكَ أَبِي

اب میں اور جعفر گھر میں باقی رہے۔ جعفر اٹھے اور انہوں نے میرے سامنے ایک کتاب نکالی جو اونٹ کی ران کی طرح موٹی تھی۔ اور کہنے لگے کہ یہ کتاب میں تمہیں نہ پڑھاؤں گا یہاں تک کہ تم اللہ کو ضامن دو کہ جو کچھ اس صحیفہ میں پڑھو گے اس کو کسی سے بیان نہ کرنا۔ تاقتیکہ میں تم کو اجازت نہ دوں۔ جعفر صادق نے اپنے باپ کی شرط نہ لگائ۔

فَقُلْتُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ وَ لِمَ تُضَيِّقُ عَلَيَّ وَ لَمْ يَأْمُرْكَ أَبُوكَ بِذَلِكَ فَقَالَ لِي مَا أَنْتَ بِنَاظِرٍ فِيهَا إِلَّا عَلَى مَا قُلْتُ لَكَ فَقُلْتُ فَذَاكَ لَكَ وَ كُنْتُ رَجُلًا عَالِماً بِالْفَرَائِضِ وَ الْوَصَايَا بَصِيراً بِهَا حَاسِباً لَهَا أَلْبَثُ الزَّمَانَ أَطْلُبُ شَيْئاً يُلْقَى عَلَيَّ مِنَ الْفَرَائِضِ وَ الْوَصَايَا لَا أَعْلَمُهُ فَلَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ

تو میں نے کہا کہ اللہ تمہاری اصلاح کرے تم کیوں مجھ پر تنگی کرتے ہو، تمہارے باپ نے تو تم کو اس کا حکم نہ یا تھا تو جعفر نے کہا کہ تم اس کتاب کو نہین دیکھ سکتے مگر اسی شرط کے ساتھ جو میں نے بیان کیا تو میں نے کہا اچھا شرط بھی تمہاری خاطر سے منظور ہے ۔ اور میں ایک شخص تھا علم فرائض اور وصایا کا جاننے والا اور ان علوم میں بصیرت رکھنے والا۔

فَلَمَّا أَلْقَى إِلَيَّ طَرَفَ الصَّحِيفَةِ إِذَا كِتَابٌ غَلِيظٌ يُعْرَفُ أَنَّهُ مِنْ كُتُبِ الْأَوَّلِينَ فَنَظَرْتُ فِيهَا فَإِذَا فِيهَا خِلَافُ مَا بِأَيْدِي النَّاسِ مِنَ الصِّلَةِ وَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ الَّذِي لَيْسَ فِيهِ اخْتِلَافٌ وَ إِذَا عَامَّتُهُ كَذَلِكَ

جب جعفر صادق نے اس صحیفہ کا ایک کنارا میری طرف ڈالا تو میں نے دیکھا کہ ایک موٹی کتاب ہے اور معلوم ہوا کہ اگلوں کی کتابوں میں سے ہے۔ میں نے اس کو دیکھا تو اس میں وہ مسائل ملے جو تمام لوگوں کے خلاف تھے۔ صلہ اور امر معروف جس میں کوئ اختلاف نہیں ﴿اس کتاب میں ان مسائل کے بھی خلاف تھا﴾ وہ پوری کتاب ایسی ہی تھی۔

فَقَرَأْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهِ بِخُبْثِ نَفْسٍ وَ قِلَّةِ تَحَفُّظٍ وَ سَقَامِ رَأْيٍ وَ قُلْتُ وَ أَنَا أَقْرَؤُهُ بَاطِلٌ حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهِ ثُمَّ أَدْرَجْتُهَا وَ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِ

میں نے شروع سے آخر تک خباثت نفس کے ساتھ پڑھا اور یاد کرنے کا ارادہ کم کیا اور اس کے متعلق بری رائے قائم کی میں اس کو پڑھتا جاتا تھا وار کہتا تھا کہ یہ کتاب بالکل باطل ہے۔ یہاں تک میں نے اس کو ختم کرکے لپیٹ کر جعفر صادق کے حوالہ کر دیا۔

فَلَمَّا أَصْبَحْتُ لَقِيتُ أَبَا جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) فَقَالَ لِي أَ قَرَأْتَ صَحِيفَةَ الْفَرَائِضِ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ كَيْفَ رَأَيْتَ مَا قَرَأْتَ قَالَ قُلْتُ بَاطِلٌ لَيْسَ بِشَيْ‏ءٍ هُوَ خِلَافُ مَا النَّاسُ عَلَيْهِ قَالَ فَإِنَّ الَّذِي رَأَيْتَ وَ اللَّهِ يَا زُرَارَةُ هُوَ الْحَقُّ الَّذِي رَأَيْتَ إِمْلَاءُ رَسُولِ اللَّهِ ( صلى الله عليه وآله ) وَ خَطُّ عَلِيٍّ ( عليه السلام ) بِيَدِهِ

پھر میں امام باقر سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا فرائض کا صحیفہ تم نے پڑھ لیا، میں کے کہا ہاں۔ امام نے پوچھا کہ جو کچھ تم نے پڑھا اس کے متعلق تمہاری رائے کیا ہے۔ میں نے کہا کہ وہ بالکل باطل ہے۔ کچھ نہیں ہے۔ تمام لوگوں کا جن امورمیں اتفاق ہے ان کے خلاف ہے۔ امام نے فرمایا ﴿یہ تو سچ ہے ﴾ مگر جو کتاب تم نے دیکھی ہے اے زرارہ اللہ کی قسم وہ حق ہے۔ جو کتاب تم نے دیکھی وہ رسول اللہ ﴿ص﴾ کی بولی ہوئ اور حضرت علی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ۔

الکافی باب ميراث الولد مع الابوين (یہ روایت مجلسی اور بہبودی دونوں کے نزدیک صحیح ہے۔(

اس روایت سے کچھ امور کا پتہ چلتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ زرارہ بے چارہ کوشش میں رہتا تھا کہ اکیلے امام صاحب سے ملاقات کر لے۔ کیونکہ عوام الناس کے سامنے تو امام صاحب تقیہ کے مطابق فتوی دیتے تھے، جو ظاہر ہے حق کے خلاف اور عوام الناس کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ اسی وجہ سے زرارہ کہتا ہے کہ (میں اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ بغیر تنہائی کے ان سے کچھ پوچھوں اس خوف سے کہ کہیں مجھے وہ تقیہ کے ساتھ فتوٰی نہ دے دیں)۔ معلوم ہوا امام صاحب لوگوں کو بہت گمراہ کرتے رہے، اور لوگ سمجھتے رہے کہ اہل بیت کا یہی مذہب ہے۔

2۔ امام جعفر نے مسائل پر مبنی کتاب تو نکالی، اور زرارہ کو پڑھانے پر بھی راضی ہوئے، لیکن شرط لگائی کہ (یہ کتاب میں تمہیں نہ پڑھاؤں گا یہاں تک کہ تم اللہ کو ضامن دو کہ جو کچھ اس صحیفہ میں پڑھو گے اس کو کسی سے بیان نہ کرنا)۔ معلوم ہوا کہ یہ کتاب کچھ ایسی خرافات پر مبنی تھی، جو لوگوں کو معلوم ہو جاتی تو لوگ سخت غم و غصہ میں مبتلا ہو جاتے۔

3۔ زرارہ کہتا ہے (میں ایک شخص تھا علم فرائض اور وصایا کا جاننے والا اور ان علوم میں بصیرت رکھنے والا۔) معلوم ہوا کہ اس وقت تک زرارہ عالم بن چکا تھا، کیونکہ وہ امام باقر کا صحابی بھی رہ چکا تھا۔ لھذا اس کا علم مکمل تھا۔

4۔ زرارہ نے اس کے بعد جب وہ کتاب کھولی تو زرارہ کا بیان ہے کہ (میں نے اس کو دیکھا تو اس میں وہ مسائل ملے جو تمام لوگوں کے خلاف تھے۔ صلہ اور امر معروف جس میں کوئ اختلاف نہیں ﴿اس کتاب میں ان مسائل کے بھی خلاف تھا﴾ وہ پوری کتاب ایسی ہی تھی۔) معلوم ہوا کہ اس کتاب میں جو مسائل تھے، وہ اس وقت کے سب لوگوں کے خلاف تھے۔ خود زرارہ بھی حیران رہ گیا تھا، اور یہ زرارہ امام باقر کا صحابی تھا جو اس وقت عالم بھی تھا۔ ذرا سوچئے وہ کیسی کتاب ہوگی۔

5۔ زرارہ کہتا ہے کہ (میں نے شروع سے آخر تک خباثت نفس کے ساتھ پڑھا اور یاد کرنے کا ارادہ کم کیا اور اس کے متعلق بری رائے قائم کی میں اس کو پڑھتا جاتا تھا وار کہتا تھا کہ یہ کتاب بالکل باطل ہے۔) معلوم ہوا کہ وہ کتاب ایسی "شاہکار" تھی کہ خود امام کا پکا صحابی بھی اس کو پڑھتے وقت دل میں سخت نفرت محسوس کر رہا تھا۔ اور باوجود یہ کہ وہ امام کا پکا صحابی تھا، لیکن امام صاحب کی کتاب کے باطل ہونے کا اسے یقین ہو گیا۔

6۔ اگلے دن جب امام باقر کے ساتھ زرارہ کی ملاقات ہوئی تو زرارہ نے کہا (وہ کتاب بالکل باطل ہے۔ کچھ نہیں ہے۔ تمام لوگوں کا جن امورمیں اتفاق ہے ان کے خلاف ہے۔) اس سے ایک دفعہ پھر اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ کتاب بالکل ہی عجیب و غریب کتاب تھی، اور جن امور پر تمام لوگوں کا اتفاق تھا، یہ کتاب ان سب امور کے خلاف تھی۔ ذرا سوچئے کہ شیعہ جو کہتے ہیں کہ اختلاف کہاں ہے، تو ذرا اس روایت پر نظر ڈالیں۔ اصل شیعہ مذہب جو اس کتاب میں لکھا ہوا ہے، وہ تو ان تمام امور کے خلاف ہے جن میں تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ معلوم ہوا کہ جس مذہب کی شیعہ آج کل پیروی کرتے ہیں، اس میں بھی بہت کچھ تقیہ کی کارسازی ہے، اور امام قائم آئیں گے تو ایک "نادر و نایاب" تحفہ بصورت کتاب لائیں گے اور لوگ دنگ رہ جائیں گے۔

7۔ امام باقر نے اس کتاب کی تصدیق ان الفاظ کے ساتھی کی (اے زرارہ اللہ کی قسم وہ حق ہے۔ جو کتاب تم نے دیکھی وہ رسول اللہ ﴿ص﴾ کی بولی ہوئ اور حضرت علی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔) معلوم ہوا کہ شیعہ مذہب کی اصلی کتاب تو یہی تھی، جو خود زرارہ جیسے عالم کو بھی حیران و پریشان کر گئی۔ یعنی زرارہ جیسا عالم اور امام باقر کا پکا صحابی جو امام کے تقیہ پر مبنی فتاوی سے بچنے کے لئے تنہائی میں ملاقات کی کوشش میں لگا رہتا تھا، وہ بھی اس کتاب کو پڑھ کر کہنے لگا کہ یہ تو بالکل عجیب و غریب بلا ہے، اور باطل ہے، پھر آج کل کے شیعہ اس کو پڑھیں گے تو ان کی کیا حالت ہوگی، آپ سوچ سکتے ہیں۔ لیکن امام صاحب نے اس کی ایسی تصدیق کر دی، کہ اس کے اصلی ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہ چھوڑی۔

پس سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ عقیدہ امامت کہ جس کے لئے عجیب و غریب قصے بنائے گئے، دراصل ساری خرابی کی یہی جڑ ہے۔ لازما یہ روایت اسی فیکٹری کی پیداوار ہے جہاں سے یہ ساری روایتیں گڑی جاتی رہیں، جو شیعہ عقیدہ امامت کے بطلان پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ کیا کوئی بھی مسلمان اس روایت کو پڑھنے کے بعد یہ سوچ سکتا ہے کہ شیعوں کا مزعوم عقیدہ امامت بحق ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ چند دجالوں کی جعلی روایتوں والی فیکٹری کی پیداوار روایت ہے، جو شیعہ کے ہاں صحیح ہے، اور ہمارے ہاں شیعہ مذہب کے مکر وفریب اور جھوٹ پر مبنی ہونے کے حوالے سے اظہر من الشمس ہے۔

 


شیعہ اپنے ائمہ کی عصمت کے قائل ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ان کے ائمہ کسی قسم کا گناہ یا خطا کا ارتکاب نہیں کرتے تھے۔

کلینی اپنی کتاب الکافی میں فرماتے ہیں

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) يَا مُحَمَّدُ إِيَّاكَ أَنْ تَمْضَغَ عِلْكاً فَإِنِّي مَضَغْتُ الْيَوْمَ عِلْكاً وَ أَنَا صَائِمٌ فَوَجَدْتُ فِي نَفْسِي مِنْهُ شَيْئاً .

امام محمد باقر نے فرمایا، اے محمد روزہ میں گوند چابنے سے بچو۔ میں نے روزہ میں گوند چاب کر دیکھا تو اپنے نفس پر اس کا الٹا اثر پایا۔ فروع کافی، ج 3 ص 275، کتب الصوم

مجلسی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

علکہ عربی میں چیونگ گم کو کہتے ہیں۔ تو امام صاحب روزے کے دوران چیونگ گم چبا رہے تھے، اور بعد میں ان کو پتہ چلا کہ اس کا تو منفی اثر بھی ہوتا ہے۔

اسی طرح شیعہ کی معتبر کتاب عیون اخبار الرضا کی روایت ہے کہ

عن أبي الصّلت الهروي قال: قلت للرضا (عليه السلام): يا ابن رسول الله، إنّ في الكوفة قوما يزعمون أنّ النبي (صلى الله عليه وآله) لم يقع عليه السهو في صلاته؟، فقال: "كذبوا لعنهم الله، إنّ الذي لا يسهو هو الله الذي لا إله إلا هو

ابو صلت ہروی کہتا ہے کہ میں نے امام رضا سے کہا کہ اے رسول اللہ ﷺ کے بیٹے، کوفہ میں ایک قوم ہے جو کہتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نماز میں سہو ہرگز نہیں ہوا۔ تو انہوں نے کہا، جھوٹ بولتے ہیں، اللہ ان پر لعنت کرے، صرف اللہ ہی ہے جس سے سہو نہیں ہوتا۔ عیون اخبار الرضا، ج 2 ص 203

اس روایت کی سند بھی ان شاء اللہ ثقہ راویوں پر مشتمل ہے۔

اسی طرح فروع کافی کی روایت میں ہے کہ 
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ سَعِيدٍ الْأَعْرَجِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) يَقُولُ نَامَ رَسُولُ اللَّهِ ( صلى الله عليه وآله ) عَنِ الصُّبْحِ وَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَنَامَهُ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلَيْهِ وَ كَانَ ذَلِكَ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِلنَّاسِ أَ لَا تَرَى لَوْ أَنَّ رَجُلًا نَامَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ لَعَيَّرَهُ النَّاسُ وَ قَالُوا لَا تَتَوَرَّعُ لِصَلَوَاتِكَ فَصَارَتْ أُسْوَةً وَ سُنَّةً فَإِنْ قَالَ رَجُلٌ لِرَجُلٍ نِمْتَ عَنِ الصَّلَاةِ قَالَ قَدْ نَامَ رَسُولُ اللَّهِ ( صلى الله عليه وآله ) فَصَارَتْ أُسْوَةً وَ رَحْمَةً رَحِمَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِهَا هَذِهِ الْأُمَّةَ .

امام جعفر نے فرمایا، صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ سو گئے۔ اللہ نے ان کو سلایا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ یہ رحمت خدا کی طرف سے لوگوں پر، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب کوئی طلوع آفتاب تک سوتا ہے تو لوگ اسے عیب لگاتے ہیں کہ تو نماز میں احتیاط سے کام نہیں لیتا۔ پس یہ اسوہ اور سنت رسول ﷺ قرار پایا۔ اگر کوئی کہے کہ تو نے نماز سونے میں کھوئی تو وہ کہے گا رسول اللہ ﷺ بھی سو گئے تھے۔ پس یہ اسوہ رسول ﷺ اور رحمت الہٰی ہو گئی اس امت کے لئے۔ فروع کافی ، ج 2 ص 42

مجلسی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

مزید سنئے، شیعہ ائمہ کے اکثر اصحاب بھی ان کو معصوم ہی نہیں مانتے تھے۔ چنانچہ مجلسی اپنی کتاب حق الیقین میں فرماتے ہیں

جمعى از راويان كه در اعصار ايمه بوده‏اند از شيعيان اعتقاد بعصمت ايشان نداشته‏اند بلكه ايشان را از علماى نيكوكار ميدانسته‏اند چنانچه از رجال كشى ظاهر ميشود و مع ذلك ايمه (ع) حكم بايمان بلكه بعدالت ايشان ميكرده‏اند

ائمہ کے زمانے میں اکثر شیعہ راوی ایسے تھے کہ کہ وہ اپنے ائمہ کی عصمت کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ ان کو صرف نیک علماء ہی سمجھتے تھے، جیسا کہ رجال کشی سے واضح ہوتا ہے، اور اس کے باوجود ائمہ کرام ان راویوں کے ایمان بلکہ عدالت کی بھی تصدیق فرما دیتے تھے۔

حق الیقین، ص 544
https://download.ghbook.ir/…/4000/2439-f-1390013-haqolyqen-j…

ظاہر سی بات ہے کہ ائمہ کرام جب روزے میں چیونگ گم چباتے ہوں تو ان کے ثقہ شیعہ اصحاب کیونکر ان کی عصمت کا عقیدہ رکھ سکتے تھے۔ لیکن مجلسی نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ شیعہ ائمہ بھی ایسے اصحاب کو مومن سمجھتے تھے جو ان کی عصمت کا عقیدہ نہ رکھتے ہوں۔ بلکہ شیعہ ائمہ تو اپنے ان اصحاب کی عدالت کے بھی قائل تھے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ شیعہ جو کہتے ہیں کہ ان کے ائمہ معصوم ہیں، تو یہ عقیدہ خود ان ائمہ کے اکثر اصحاب کا بھی نہیں تھا، اور نہ ہی اس وجہ سے ائمہ نے ان اصحاب کے ایمان یا عدالت کی نفی کی۔

 

شیعوں کے ائمہ کا آپس میں اختلاف بھی ہو جایا کرتا تھا۔ چنانچہ کلینی صاحب اپنی کتاب الکافی میں روایت کرتے ہیں۔

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) أَنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً فَكَرِهَ ذَلِكَ أَبِي فَمَضَيْتُ فَتَزَوَّجْتُهَا حَتَّى إِذَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ زُرْتُهَا فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ مَا يُعْجِبُنِي فَقُمْتُ أَنْصَرِفُ فَبَادَرَتْنِي الْقَيِّمَةُ مَعَهَا إِلَى الْبَابِ لِتُغْلِقَهُ عَلَيَّ فَقُلْتُ لَا تُغْلِقِيهِ لَكِ الَّذِي تُرِيدِينَ فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى أَبِي أَخْبَرْتُهُ بِالْأَمْرِ كَيْفَ كَانَ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ لَهَا عَلَيْكَ إِلَّا نِصْفُ الْمَهْرِ وَ قَالَ إِنَّكَ تَزَوَّجْتَهَا فِي سَاعَةٍ حَارَّةٍ .

زرارہ کا بیان ہے کہ مجھے امام باقر نے کہا کہ انہوں نے ایک عورت سے نکاح کا ارادہ کیا، جناب امام باقر کے والد یعنی امام زین العابدین نے اس کو ناپسند کیا، لیکن پھر بھی امام صاحب گئے اور اس عورت سے شادی کر لی۔ امام باقر کا بیان ہے کہ اس کے بعد جب میں اس عورت کے پاس گیا، اور اس کو دیکھا تو وہ مجھے پسند نہ آئی، پس میں اٹھا تاکہ واپس لوٹ جاؤں۔ لیکن اس کا داروغہ اٹھا اور اس نے مجھ پر دروازہ بند کر دیا۔ میں نے کہا کہ دروازہ نہ بند کر، اور جو تو لینا چاہتی ہے، وہ لے لے۔ پس جب میں واپس اپنے والد صاحب کے پاس آیا اور انہیں یہ قصہ سنایا، تو انہوں نے کہا کہ تم پر تو صرف نصف مہر دینا واجب تھا، اور کہا کہ تم نے اس عورت سے گرم ساعت میں شادی کی تھی (اس لئے ایسا ہوا۔)

الکافی، ج 5 ص 366 (مجلسی نے اس روایت کو موثق قرار دیا ہے)

غالبا امام صاحب کو "کرش" ہوا تھا، جس کا انجام بہت جلد سامنے آ گیا۔ اپنے معصوم عن الخطا والد صاحب کی رضا ہی کو ہی مد نظر رکھ لیتے تو شائد اس حادثے سے بچ جاتے۔ علم الغیب کا عقیدہ تو اس واقعے کے دوران گھاس چرنے گیا تھا۔

دوسری روایت ملاحظہ کریں۔

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنْ أَبِي خَدِيجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي فِي الْيَوْمِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَأَوْصَانِي بِأَشْيَاءَ فِي غُسْلِهِ وَ فِي كَفْنِهِ وَ فِي دُخُولِهِ قَبْرَهُ فَقُلْتُ يَا أَبَاهْ وَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُكَ مُنْذُ اشْتَكَيْتَ أَحْسَنَ مِنْكَ الْيَوْمَ مَا رَأَيْتُ عَلَيْكَ أَثَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ يَا بُنَيَّ أَ مَا سَمِعْتَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ( عليه السلام ) يُنَادِي مِنْ وَرَاءِ الْجِدَارِ يَا مُحَمَّدُ تَعَالَ عَجِّلْ .

امام جعفر فرماتے ہیں کہ میں اس روز اپنے والد صاحب کے پاس تھا، جس روز میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، تو اس روز میں ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے اپنے غسل، کفن دفن اور قبر میں اتارنے کے متعقل وصیت فرمائی۔ میں نے کہا، اے ابا جان، جب سے آپ کی حالت خراب ہوئی ہے، اس روز سے لے کر آج تک آپ کی حالت اتنی بہت میں نے نہیں دیکھی۔ میں تو موت کے آثار آپ پر بالکل موجود نہیں پاتا۔ انہوں نے فرمایا، اے بیٹا، کیا تم امام زین العابدین علی بن حسین کو نہیں سن پا رہے جو پس دیوار سے فرما رہے ہیں کہ اے محمد، جلدی آ۔

الکافی، ج 1 ص 260 (اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں، اگرچہ مجلسی نے اس روایت ک ضعیف کالموثق قرار دیا ہے)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ ائمہ علم غیب کیا رکھتے، انہیں پس دیوار سے اپنے دادا کی آواز بھی نہ سنائی دیتی۔ اور اگر یہ آواز خاص امام باقر کے لئے تھی، تو پھر امام باقر غالبا مکمل ہوش و حواس میں نہ تھے، جو ان کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ آواز تو فقط ان کے لئے ہیں۔ کہاں ذرے ذرے کا علم اور کہاں اتنی لا علمی۔ ہاں ہاں، یہ امام باقر وہی ہیں جنہوں نے فرمایا کہ (لَوْ كَانَ لِأَلْسِنَتِكُمْ أَوْكِيَةٌ لَحَدَّثْتُ كُلَّ امْرِئٍ بِمَا لَهُ وَ عَلَيْهِ .) اے پیروکاروں، اگر تمہاری زبانوں پر تالے ہوتے تو ہم تمہیں تمہارے سب نفع و نقصان کی خبر دیتے۔

یہ بھی چھوڑیئے، ایک اور روایت پڑھئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کو اپنے بعد آنے والے وصی کا بھی نہیں پتا۔

امام موسی کاظم نے فرمایا، اے ابو عمارہ ، میں تمہیں بتاتا ہوں۔ میں اپنے گھر سے نکلا اور میں نے لوگوں کے سامنے وصیت کی اپنے فلاں بیٹے کے متعلق اور بظاہر اپنے اور بیٹوں کو بھی شریک کیا۔ لیکن درحقیقت وصیت اس کے لئے تھی۔ میں نے تنہا اسی کو وصی بنایا۔ اگر یہ امر امامت میرے اختیار میں ہوتا تو میں اپنے بیٹے قاسم کو بناتا کیونکہ مجھے اس سے بے پناہ محبت ہے اور میری مہربانی بھی اس پر زیادہ ہے لیکن یہ امر تو خدا کے اختیار میں ہے، اور وہ امر امامت کو جہاں چاہتا ہے قرار دیتا ہے۔ اور خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی اور میرے وصی کو دکھایا اور ان بادشاہان ضلالت کو بھی جو ان کے زمانہ میں ہوں گے۔ اسی طرح ہم میں سے کوئی کسی کو وصی نہیں بناتا جب تک اس کو خبر نہ ملے رسول اللہ ﷺ سے اور میرے جد علی مرتضیٰ سے۔ خدا کا درود ہو ان پر۔ اور میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس انگوٹھی دیکھی اور تلوار ، عصا اور کتاب اور عمامہ، میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ، یہ کیا ہے؟ فرمایا ، یہ عمامہ خدائےعز و جل کی سلطنت ہے۔ اور تلوار عزت خدا ہے اور کتاب نورخدا ہے اور عصا قوت خدا ہے اور انگوٹھی ان سب کی جامع ہے۔ پھر مجھ سے فرمایا، اب یہ امر امامت تم سے نکل کر دوسرے کی طرف جانے والا ہے۔ میں نے کہا، (فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرِنِيهِ أَيُّهُمْ هُوَ ) یا رسول اللہ ﷺ دکھائیے کہ ان میں وہ کون ہے؟ حضرت نے فرمایا، میں نے اس امر امامت کی مفارقت میں ائمہ میں سے کسی کو تم سے زیادہ مضطرب نہیں پایا۔ اگر امامت کا معاملہ محبت سے متعلق ہوتا تو اسماعیل تمہارے باپ کے لئے تم سے زیادہ محبوب تھے لیکن یہ امر خدا کے اختیار میں ہے۔
اصول کافی، ج 2 ص 252

لگتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم سے شیعوں کو کوئی خاص چڑ تھی۔ ان کے فتاوٰی کو بھی پچھلے ائمہ کے ثقہ اصحاب قبول نہیں کرتے تھے۔

علي بن الحسن بن فضال عن أيوب بن نوح وسندي بن محمد عن صفوان بن يحيى عن شعيب العقرقوفي قال: سألت أبا الحسن (ع) عن رجل تزوج امرأة لها زوج ولم يعلم قال: يرجم المرأة وليس على الرجل شئ إذا لم يعلم قال: فذكرت ذلك لابي بصير قال: فقال لي والله (أبي) جعفر (ع): ترجم المرأة ويجلد الرجل الحد وقال بيديه على صدره يحكه ما أظن أن صاحبنا تكامل علمه

شعیب عرقوقی کا بیان ہے کہ میں نے امام موسیٰ کاظم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو شادی شدہ عورت سسے شادی کرے اور اس کو پتہ بھی نہ ہو۔ اس نے کہا، عورت کو رجم کیا جائے گا اور مرد پر کچھ گناہ نہیں اگر اس کو علم نہیں۔ شعیب راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو بصیر کو یہ بات کہی تو اس نے کہا، اللہ کی قسم امام باقر نے کہا تھا کہ عورت کو رجم کیا جائے گا اور مرد کو کوڑے مارے جائیں گے۔ اور اس نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے کہا، مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا یہ دوست علم پر پوری دسترس رکھتا ہے۔

الاستبصار، ج 3 ص 687

اس روایت کی سند ثقہ راویوں پر مشتمل ہے۔

شائد یہی وجہ ہے کہ امام باقر نے زرارہ سے کہا (ما عندك من احاديث الشيعة) یعنی تیرے پاس شیعوں کی کون سی احادیث ہیں، تو زرارہ نے کہا (ان عندي منها شيئا كثيرا قد هممت ان اوقد لها نارا ثم احرقها) یعنی میرے پاس ان میں سے بہت سی ہیں اور میں تو چاہتا ہوں کہ ان کے لئے آگ لگاؤں اور ساری اس آگ میں جلا ڈالوں۔ دیکھئے بصائر الدرجات

 

شیعہ عقیدہ امامت ایک ایسی عجیب شئے ہے کہ جس کو تمام غیر مرسل انبیاء کرام اور غیر مقرب فرشتوں نے بھی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ شیعہ کی معتبر کتاب بصائر الدرجات میں اس کے متعلق کئی روایات جمع کی گئی ہیں۔ 
چند روایات مندرجہ ذیل ہیں۔

حدثنا محمد بن عبد الحميد وأبو طالب جميعا عن حنان عن أبيه عن أبي جعفر عليه السلام أنه قال يا أبا الفضل لقد أمست شيعتنا أو أصبحت على أمرنا ما أقر به الا ملك مقرب أو نبي مرسل أو عبد مؤمن امتحن الله قلبه للايمان.

حنان نے اپنے باپ سدیر الصیرفی سے انہوں نے امام باقر سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا، اے ابو فضل، ہمارے شیعہ صبح و شام ایسے امر پر مامور ہیں جس کا اقرار نہیں کرتا مگر ملک مقرب یا نبی مرسل یا وہ مومن عبد جس کے دل کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو۔
بصائر الدرجات، ص 47

حدثنا محمد بن عبد الجبار عن الحسن بن الحسين اللؤلؤي عن محمد بن الهيثم عن أبيه عن أبي حمزة الثمالي قال سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول أمرنا صعب مستصعب لا يحتمله الا ثلث ملك مقرب أو نبي مرسل أو عبد امتحن الله قلبه للايمان ثم قال يا أبا حمزة الست تعلم في الملائكة مقربين وغير مقربين وفى النبيين مرسلين وغير مرسلين وفى المؤمنين ممتحنين وغير ممتحنين قلت بلى قال الا ترى إلى صفة أمرنا ان الله اختار له من الملائكة مقربين ومن النبيين مرسلين ومن المؤمنين ممتحنين

ابوحمزہ الثمالی نے بیان کیا کہ میں نے امام باقر کو فرماتے سنا، ہمارا امر صعب، مستصعب ہے۔ اسے صرف تین لوگ اپنا سکتے ہیں۔ مقرب فرشتے، نبی مرسل یا وہ مومن بندہ جس کے دل کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا۔ پھر فرمایا، اے ابو حمزہ، کیا تم جانتے نہیں کہ کچھ فرشتے مقرب اور کچھ غیر مقرب ہیں۔ کچھ انبیاء مرسل اور کچھ غیر مرسل ہیں۔ اور کچھ مومن اللہ کی طرف سے امتحان شدہ اور کچھ غیر امتحان شدہ ہیں۔ میں نے کہا ، ہاں۔ آپ نے فرمایا، کیا تم نے ہمارے امر کی پاکیزگی اور اخلاص نہیں دیکھا کہ اس کے لئے اللہ تعالٰی نے فرشتوں میں سے صرف مقرب فرشتے، انبیاء میں سے صرف مرسلین اور مومنوں میں سے صرف امتحان شدہ مومن منتخب کئے ہیں۔
بصائر الدرجات، ص 48

اور بھی کئی اسناد سے اسی قسم کی روایتین اسی باب میں نقل ہوئی ہیں، اور سب کا یہی مفہوم ہے۔ دیکھئے بصائر الدرجات، باب ان أمرهم صعب مستصعب

لہٰذا اے مسلمانوں، اگر آپ کو شیعہ عقیدہ امامت عجیب و غریب دکھائی دیتا ہے تو حیران نہ ہوں۔ انبیاء کرام اور فرشتوں کو بھی یہ امر عجیب و غریب دکھائی دیا تھا، اور انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

تمام روایات کو میں پہلے کمنٹ میں پوسٹ کر رہا ہوں۔ جس شیعہ کو اسناد میں اشکال ڈھونڈنا ہو، وہ ڈھنڈ کر نکال سکتا ہے۔ شکریہ

 


شیعہ ائمہ نے اپنے شیعوں کو عقیدہ امامت کی طرف بلانے سے منع کر رکھا ہے۔ اور اس حوالے سی شیخ کلینی نے اصول کافی اور فروع کافی میں متعدد روایات نقل کی ہیں، جن میں سے چند روایات یہ ہیں۔

ثابت بن سعید سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا، اے ثابت تم ہمارے دشمنوں سے کیوں ملتے جلتے ہو۔ (يَا ثَابِتُ مَا لَكُمْ وَ لِلنَّاسِ كُفُّوا عَنِ النَّاسِ وَ لَا تَدْعُوا أَحَداً إِلَى أَمْرِكُمْ ) ان کے اختلاط سے باز رہو اور ان میں سے کسی کو اپنے مذہب کی طرف نہ بلاؤ۔ خدا کی قسم اگر تمام اہل زمین اور آسمان اس بندہ کی ہدایت کرنا چاہیں جس کو خدا نے گمراہی میں چھوڑنے کا ارادہ کیا ہے تو وہ اس کی ہدایت پر قدرت نہ رکھ سکیں گے اور اگر تمام اہل آسمان و زمین اس شخص کو گمراہ کرنا چاہیں خدا جس کی ہدایت کا ارادہ رکھتا ہے تو ان کی طاقت سے باہر ہے۔ لوگو، ہمارے دشمنوں سے بز رہو اور کوئی یہ نہ کہے کہ یہ میرا چچا ہے یہ میرا بھائی ہے یہ میرا چچیرا بھائی ہے اور یہ میرا پڑوسی ہے کیونکہ اللہ تعالی جس بندہ کے لئے نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کی روح کو پاک کرتا ہے پس وہ اچھی بات کو قبول کرتا ہے اور بری بات سے نفرت کرتا ہے اور خدا اس کے دل میں ایسا کلمہ ڈال دیتا ہے کہ اس کے ایمان کے تمام اجزاء جمع ہو جاتے ہیں۔

اصول کافی، ج 1 ص 315

فضیل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر سے کہا ، (نَدْعُو النَّاسَ إِلَى هَذَا الْأَمْرِ فَقَالَ لَا) ہم لوگوں کو امر امامت کی طرف بلائیں۔ فرمایا نہیں۔ اے فضیل، جب خدا کسی بندہ سے نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ کو حکم دیتا ہے، وہ اس کی گردن پکڑ کر اس امر کی طرف متوجہ کر دیتا ہے چاہے وہ خوش ہو یا نا خوش۔

اصول کافی ج 1 ص 318

امام موسی کاظم نے خیمے میں داہنے بائیں دیکھا اس خوف سے کہ کوئی آپ کا کلام نہ سن لے۔ پھر مجھ سے فرمایا، (يَا خَلَفُ سِرَّ اللَّهِ سِرَّ اللَّهِ فَلَا تُذِيعُوهُ وَ لَا تُعَلِّمُوا هَذَا الْخَلْقَ أُصُولَ دِينِ) اے خلف یہ اللہ کا بھید ہے۔ اللہ کا بھید ہے اسے شائع نہ کرو اور اس مخلوق کو دین خدا کی تعلیم نہ دو بلکہ جو گمراہی اللہ تعالٰی نے ان کے مقدر میں لکھ دی ہے، اسی پر قناعت کرو۔

فروع کافی ج 1 ص 148 (اس روایت کو مجلسی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کے ائمہ نے اپنے شیعوں کو سختی سے عقیدہ امامت کے پرچار سے منع کر رکھا تھا۔ اور بتلا رکھا تھا کہ لوگوں کو گمراہ ہی رہنے دو، جس کے مقدر میں ہدایت ہوگی، اللہ تعالی خود اس کو ہدایت سے نواز دیں گے۔ اور آج کل کے شیعوں پر تعجب ہے کہ اپنے ائمہ کی تعلیمات کو بھلا چکے ہیں اور عقیدہ امامت کا پرچار ہر جگہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں بھی معلوم ہے کہ شیعوں کے ائمہ اپنے ائمہ کی کم اور اپنے عقل کی زیادہ سنتے ہیں۔ کیونکہ انہیں ائمہ کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سراسر نقصان دکھائی دیتا ہے۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنا نقصان برداشت کریں؟

 

امامت کی شرائط ہی وہ بنیادی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے شیعوں میں اختلاف پڑا۔ امام میں یہ شرط ہونی چاہئے، امام میں وہ شرط ہونی چاہئے۔ شیعہ بے چارے پھنس گئے۔ جو کام ایک چھوٹی سی روایت میں حل ہو سکتا تھا، وہ شرائط کے میدان میں فٹ بال بن گیا۔ اب دیکھئے، امام صاحب نے ائمہ کی بارہ علامات بیان کیں۔

امام باقر نے فرمایا، امام کی بارہ علامتیں ہیں۔ اول یہ کہ وہ پاک و طاہر پیدا ہوتا ہے۔ ختنہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ جب شکم مادر سے نکلتا ہے تو اپنی ہتھیلیاں زمین پر رکھتا ہے اور بلند آواز سے شہادتین پڑھتا ہے۔ جنب نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ جماہی لیتا ہے نہ انگڑائی۔ وہ آگے سے جس طرح دیکھتا ہے، اسی طرح پیچھے سے دیکھتا ہے۔ اس کے فضلہ میں مشک کی سی بو ہوتی ہے اور زمین اس کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ اسے چھپا لے اور نگل جائے۔ (وَ إِذَا لَبِسَ دِرْعَ رَسُولِ اللَّهِ ( صلى الله عليه وآله ) كَانَتْ عَلَيْهِ وَفْقاً وَ إِذَا لَبِسَهَا غَيْرُهُ مِنَ النَّاسِ طَوِيلِهِمْ وَ قَصِيرِهِمْ زَادَتْ عَلَيْهِ شِبْراً ) اور جب وہ زرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنے تو اس کے جسم پر ٹھیک ہو، اور اگر اس کا غیر پہنے تو چاہے لمبا ہو یا پست، قد ایک بالشت اس سے زیادہ ہو، اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے ، فرشتہ اس سے کلام کرتا ہے۔

اصول کافی، کتاب الحجت ، ص 394

اس میں ایک شرط یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ان ائمہ کے جسموں پر ٹھیک ہوگی، نہ زیادہ نہ کم۔ لیکن امام باقر کے بیٹے امام جعفر خود کیا فرما رہے ہیں۔

امام جعفر سے مروی ہے کہ (لَبِسَ أَبِي دِرْعَ رَسُولِ اللَّهِ ( صلى الله عليه وآله ) ذَاتَ الْفُضُولِ فَخَطَّتْ وَ لَبِسْتُهَا أَنَا فَفَضَلَتْ) میرے پدر بزرگوار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ذات الفضول پہنی تو وہ آپ کے قد سے اتنی زیادہ تھی، کہ زمین پر خط دیتی تھی۔ اور جب میں نے اس کو پہنا تو اس سے زیادہ بڑی معلوم ہوئی۔

اصول کافی ، کتاب الحجت، ص 116

اب خود ملاحظہ کریں، کیا امام صاحب اپنی ہی پیش کردہ شرط سے نا اہل نہیں قرار پاتے

 

شیعوں کے ائمہ نے عقیدہ امامت کو ایسا گھما پھرا کر بیان کیا کہ بے چارے شیعہ گمراہ نہ ہوتے تو کیا ہوتے۔ اب دیکھئے امام صاحب فرما رہے ہیں، ہشام بن سالم مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، (ان الامر في الكبير ما لم تكن فيه عاهة) یعنی امر امامت اولاد اکبر کے لئے ہے جب تک اس میں کوئی عیب نہ ہو۔

اصول کافی، کتاب الحجت، ص 198

اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ راوی کہتا ہے میں نے امام رضا سے پوچھا، کہ امر امامت پر دلیل کیا ہے؟ فرمایا (الدَّلَالَةُ عَلَيْهِ الْكِبَرُ وَ الْفَضْلُ وَ الْوَصِيَّةُ إِذَا قَدِمَ الرَّكْبُ الْمَدِينَةَ فَقَالُوا إِلَى مَنْ أَوْصَى فُلَانٌ قِيلَ إِلَى فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ وَ دُورُوا مَعَ السِّلَاحِ حَيْثُمَا دَارَ فَأَمَّا الْمَسَائِلُ فَلَيْسَ فِيهَا حُجَّةٌ ) پہلے یہ کہ اولاد اکبر ہو، دوسرے صاحب فضیلت ہو، تیسرے اس کے لئے سابق امام نے اس طرح وصیت کی ہو کہ جب باہر کے لوگ شہر میں آکر پوچھیں کہ فلاں نے کس کے لئے وصیت کی ہے تو سب کہیں فلاں بن فلاں کے متعلق اور یہ جہاں کہیں جائے، تبرکات رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ رہیں۔ اور جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو اس میں کوئی حجت نہیں۔

اصول کافی، کتاب الحجت، ص 198

اس روایت کو مجلسی نے صحیح قرار دیا ہے۔

اب آسان طریقہ یہ تھا کہ امام جعفر اپنے بعد کے چھ ائمہ کے ناموں کی تصریح کر دیتے۔ لیکن انہوں نے بڑا گول مول جواب دیا۔ اب شیعہ یہ سمجھے کہ چونکہ حضرت اسماعیل ہی امام جعفر کے بڑے بیٹے ہیں، اور ان میں شیعوں نے کوئی خرابی بھی نہیں دیکھی، لہذا لا محالہ وہی امام ہیں۔ اس شبہ سے بچنے کے لئے امام صاحب کو ضروری تھا کہ وہ صاف صاف نام بتا دیتے۔ آخر ان کے بعد چھ ائمہ ہی رہ گئے تھے۔ اگر وہ نام بتا دیتے تو کیا قیامت آ جاتی؟

یہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ شیعہ جھوٹ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ائمہ کے ناموں کی تصریح کر دی تھی۔ اگر بارہ ائمہ کے ناموں کی تصریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی تھی، تو امام یہ نام کیوں نہیں بتا دیتے اور قسما قسم کی شرائط کیوں بیان کرنے لگ پڑے؟ اب اس صحیح روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ مسائل میں کوئی حجت نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سدیر راوی نے امام جعفر سے کہا (إِنِّي تَرَكْتُ مَوَالِيَكَ مُخْتَلِفِينَ يَتَبَرَّأُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ قَالَ فَقَالَ وَ مَا أَنْتَ وَ ذَاكَ) اے امام، آپ کے موالی تو عقائد کے لحاظ سے مختلف ہیں، اور ایک دوسرے پر تبراء کرتے ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا کام؟

اصول کافی، کتاب الحجت، ص 397

اس روایت کو مجلسی نے حسن قرار دیا ہے۔

ان کارناموں کا صلہ امام صاحب کو ان کی زندگی میں ہی مل گیا، اور بعض لوگوں نے ان کے بڑے بیٹے اسماعیل کو امام قرار دے دیا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا، ساری زندگی یہی لوگوں کو بتاتے رہے کہ امامت بڑے بیٹے کا حق ہے، امامت کی یہ شرط ہے، وہ شرط ہے۔ لیکن یہ نہ بتایا کہ یاروں، شرائط کو چھوڑو۔ میرا بیٹا موسیٰ کاظم امام ہے، اسماعیل امام نہیں۔ رنگ برنگی شرائط نے شیعوں کو پریشان کر دیا، اور سب کے عقائد مختلف ہو گئے۔ کیونکہ کوئی بیٹا ایک شرط پر پورا اترتا ہے، تو کوئی بیٹا دوسری شرط پر پورا اترتا ہے۔ کوئی ایک ڈفلی بجا رہا ہے، کوئی دوسری ڈفلی بجا رہا ہے۔ امام سے پوچھا کہ بھئی یہ کیا حال ہے، امام نے اپنے ساتھی کو جھاڑ پلا دی کہ بھئی تسی کون لوگ او؟ موالیوں کو چھوڑو، وہ اللہ لوگ ہیں۔ جو عقیدہ رکھیں، تمہیں اس سے کیا کام؟ ہمارا خمس اور صدقات ہمیں ملتے رہیں، اور کیا چاہئے؟

اب کوئی بتائیں کہ یہ ائمہ ھدی کس طرف سے تھے؟ ان سے بڑا گمراہ کرنے والا تو اس زمانے میں کوئی تھا ہی نہیں۔

 

شیعوں کے ائمہ نے مختلف مواقع پر امامت کے لئے چند شرائط بیان کیں ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ شیعوں کے مختلف ائمہ ان شرائط پر پورا ہی نہیں اترتے۔ ان میں سے ایک شرط امام کے متعلق وصیت کا مشہور ہونا ہے۔

شیعہ کتاب اصول کافی کی روایت ہے کہ راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر سے پوچھا، امر امامت کو بجبر لینے والے اور غلط دعوے کرنے والے پر حجت کیوں کر تمام ہو۔ فرمایا اس سے حلال وحرام کے متعلق پوچھا جائے۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تین قسم کی حجتیں ہیں جو سوائے امام کے کسی میں نہیں پائی جاتیں۔ اول یہ کہ سب لوگوں سے اولٰی و افضل ہو۔ اور اس کے پاس تبرکات رسول ﷺ ہوں۔ اور اس کے لئے کھلم کھلا وصیت ہو (وَ يَكُونَ صَاحِبَ الْوَصِيَّةِ الظَّاهِرَةِ الَّتِي إِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ سَأَلْتَ عَنْهَا الْعَامَّةَ وَ الصِّبْيَانَ إِلَى مَنْ أَوْصَى فُلَانٌ فَيَقُولُونَ إِلَى فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ) کہ جب لوگ بڑے یا بچوں سے شہر میں آکر پوچھیں کہ فلاں نے کس کے متعلق وصیت کی تو لوگ کہہ دیں کہ فلاں ابن فلاں کے متعلق کی ہے۔
اس روایت کو مجلسی نے مرآۃ العقول ج 3 ص 205 پر حسن قرار دیا ہے۔

لیکن ہم جانتے ہیں کہ بعض شیعہ ائمہ کے بارے میں کوئی واضح وصیت موجود نہیں تھی اور شہر کے لوگوں کو پتہ نہ ہوتا تھا کہ اگلا امام کون ہے۔ چنانچہ فیض بن مختار سے ایک طویل حدیث میں امر امام موسیٰ کاظم ع ص کے متعلق مروی ہے کہ اس سے امام جعفر صادق ع ص نے کہا جس کے متعلق تو نے سوال کیا وہ تیرا امام یہ ہے۔ پس ان کے پاس جاؤ (امام موسیٰ کاظم ع ص اس وقت گہوارے میں تھے) اور ان کے حق کا اقرار کرو۔ پس میں کھڑا ہوا اور ان کے سر اور ہاتھ کو بوسہ دیا اور ان کے خدا سے دعا کی حضرت امام جعفر صادق ع ص نے فرمایا (أَمَا إِنَّهُ لَمْ يُؤْذَنْ لَنَا فِي أَوَّلَ مِنْكَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأُخْبِرُ بِهِ أَحَداً فَقَالَ نَعَمْ أَهْلَكَ وَ وُلْدَكَ )میں نے تم سے پہلے کسی ور کو ملنے کی اجازت نہیں دی ۔ میں نے کہا، کیا میں اس کی خبر لوگوں کو دوں ۔ فرمایا صرف خاندان والوں کو اور اپنی اولاد کو اور میرِے ساتھ میرِے اہل، میرِی اولاد اور میرے رفقاء تھے اور یونس بن فلیبان میرے رفقاء میں سے تھے ۔ جب ان لوگوں کو میں نے خبر دی تو انہوں نے خدا کی تعریف کی اور یونس ؏ نے کھا خدا کی قسم میں اکتفا نہ کروں گا جب تک خود حضرت سے نہ سن لوں اور اس کے مزاج میں جلدی تھی پس وہ چلا، میں بھی اس کے پیچھےپیچھےچلا، پس ہم دروازے پر پہنچے تو میں نے امام جعفر صادق ع ص سے سنادرآنحالیکہ وہ مجھ سے پھلے پھنچ چکا تھا۔ اے یونس جو کچھ فیض نے بیان کیا ہے وہ ٹھیک ہے۔ اس نے کہا سمعاوطاعہ ۔ حضرت امام ؏ نے فرمایا اپنے ساتھ لے جا یونس کو اے فیض۔
اس روایت کو مجلسی نے مرآۃ العقول ج 3 ص 334 پر موثق قرار دیا ہے۔

اسی طرح اصول کافی میں نضر بن سعید سے مروی ہے کہ (أَنَّهُ أَوْصَى إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ الْمَنْصُورِ وَ عَبْدِ اللَّهِ وَ مُوسَى وَ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ وَ مَوْلًى لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ) امام جعفر صادق علیہ السلام نے منصور و عبداللہ وموسٰی و محمد بن جعفر اور اپنے ایک غلام کے لئے وصیت کی۔ منصور نے کہا،اب ان لوگوں کے قتل کی کوئی صورت نہ رہی،کیونکہ منصور کا نام بھی شامل وصیت تھا۔
معلوم ہوا کہ امام نے جو شرط امامت کے لئے رکھی تھی، اس پر ان کے اپنے بیٹے بھی پورے نہیں اترتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات تو ائمہ بہت سے لوگوں کے لئے وصیت کر لیتے۔ اب ایسی صورت میں لوگوں کو کیا پتہ چلتا کہ اصل امام کون ہے؟ یہ امر تو صرف امام کے قریبی ساتھیوں کو ہی معلوم ہوتا۔ لہٰذا امام صاحب کی اس شرط پر کئی شیعہ ائمہ پورا نہیں اترے جن میں ان کے اپنے بیٹے امام موسیٰ کاظم بھی شامل ہیں۔

اسی طرح امام کے جسم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرہ کا مکمل طور پر فٹ ہونا بھی ایک شرط ہے جس پر شیعہ کے بعض ائمہ پورا نہیں اترے۔ بہرحال اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔

 

نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر 162

حضرت علی رضی اللہ عنہ جناب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں

واني انشدك الله ان لا تكون امام هذه الامة المقتول فانه كان يقال يقتل في هذه الامة امام يفتح عليها القتل والقتال الى يوم القيامة ويلبس امورها عليها ويبث الفتن فيها فلا يبصرون الحق من الباطل يموجون فيها موجا ويمرجون فيها مرجا

میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم اس امت کے وہ سربراہ نہ بنو کہ جسے قتل ہی ہونا ہے، چونکہ کہا گیا ہے کہ اس امت میں ایک ایسا حاکم مارا جائے گا جو اس کے لئے قیامت تک قتل و خونریزی کا دروازہ کھول دے گا اور اس کے تمام امور کو اشتباہ میں ڈال دے گا اور اس میں فتنوں کو پھیلائے گا کہ وہ لوگ حق کو باطل سے الگ کر کے نہ دیکھ سکیں اور فتنوں میں دریا کی موجوں کی طرح الٹے پلٹے کھائیں گے اور انہی میں تہہ و بالا ہوتے رہیں گے۔

تبصرہ : اس خطبے سے چند امور کی نشاندہی ہوتی ہے۔

نمبر 1 : پہلے دو خلفاء کے دور میں فتنوں کا آغاز ہی نہیں ہوا تھا۔
نمبر 2 : قتل و خونریزی کا دروازہ بھی پہلے دو خلفاء کے دور میں بند رہا۔ 
نمبر 3 : اگر مندرجہ بالا دو امور غلط ہیں، تو یہ خطبہ بھی تقیہ ہے اور محض خوش آمدی ہے۔
نمبر 4 : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد ہی امت میں فتنوں کا آغاز ہوا، اور قتل و خونریزی شروع ہوئی، جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے، لہذا معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جس حاکم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، وہ حاکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔
نمبر 5 : کسی "عقلمند" نے کمال ہوشیاری سے اس قول کے اصلی مرجع کو غائب کر دیا، اور اس کو "کان یقال" سے بدل دیا، اور یہ بات اتنی مشکل نہیں کہ اس کا اصل مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہونگے، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فلان و فلاں کے قول سے تو استشہاد نہیں کریں گے۔
نمبر 6 : اس روایت کے ترجمے میں مفتی جعفر حسین شیعہ نے حاکم کا لفظ استعمال کیا ہے، جبکہ روایت کے عربی متن میں امام کے الفاظ ہیں، معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امام تھے۔

شیعوں کو میرے پیش کردہ تبصرے سے اختلاف کی کھلی آزادی ہے، لیکن جواب علمی ہونا چاہئے۔ بندہ منتظر رہے گا۔

 

 

 

 

 

Search site