چند شبہات کا ازالہ

 

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نکاحِ متعہ کو جائز سمجھتے تھے، لیکن جب انہیں متعہ کی حرمت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان معلوم ہوا، تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا تھا، جیسا کہ :

ابوجمرہ، نصر بن عمران تابعی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :

سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ، فَقَالَ مَوْلًی لَّہ، : إِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ فِي الْغَزْوِ، وَالنِّسَاءُ قَلِیلٌ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : صَدَقْتَ .
میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے متعۃالنساء کے بارے میں سوال کیا، تو ان کے غلام نے کہا : یہ تو غزوات میں جائز ہوتا تھا، جب عورتیں کم تھیں۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے فرمایا : آپ نے سچ فرمایا۔"
(شرح معاني الآثار للطحاوي : ٣/٢٦، وسندہ، حسنٌ)


سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی اس روایت کو ذکرکرنے کے بعد امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں :
ہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُولُ : إِنَّمَا أُبِیحَتْ وَالنِّسَاءُ قَلِیلٌ، أَيْ فَلَمَّا کَثُرْنَ ارْتَفَعَ الْمَعْنَی الَّذِي مِنْ أَجْلِہٖ أُبِیحَتْ .
یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  ہیں، جو فرما رہے ہیں کہ متعہ اس وقت جائز قرار دیا گیا تھا، جب عورتیں کم تھیں۔ جب عورتیں زیادہ ہو گئیں، تو سبب جوازختم ہو گیا۔"

(شرح معاني الآثار : ٣/٢٦)


مشہور لغوی، ابن منظور، افریقی(٢٨٢۔٣٧٠ھ) لکھتے ہیں

فَالثَّابِتُ عِنْدَنَا أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ یَرَاہَا حَلَالاً، ثُمَّ لَمَّا وَقَفَ عَلٰی نَہْيِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہَا رَجَعَ عَنْ إِحْلَالِہَا .
ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  متعہ کو حلال سمجھتے تھے، پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرما دیا تھا، تو انہوں نے اس کو حلال قرار دینے سے رجوع فرما لیا تھا۔
(لسان العرب : ٨/٣٣٠)


امام ابو عُبَیْد، قاسم بن سلام رحمہ اللہ  (١٥٠۔٢٢٤ھ) فرماتے ہیں

وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یَتَرَخَّصُ فِیہَا، إِلَّا مَا کَانَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَإِنَّہ، کَانَ ذٰلِکَ مَعْرُوفًا مِّنْ رَّأْیِہٖ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّہ، رَجَعَ عَنْہُ .
ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی سے متعہ کی رخصت ثابت نہیں، البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  کا فتوی مشہور ہے۔ انہوں نے بھی اس فتوے سے رجوع فرما لیا تھا۔:

(الناسخ والمنسوخ، ص : ٨٠)

علامہ ابن العربی رحمہ اللہ  (٥٤٣ھ) فرماتے ہیں:

وَقَدْ کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ بِجَوَازِہا، ثُمَّ ثَبَتَ رَجُوعُہ، عَنْہَا، فَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلٰی تَحْرِیمِہَا، فَإِذَا فَعَلَہَا أَحَدٌ رُجِمَ فِي مَشْہُورِ الْمَذْہَبِ .
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نکاح متعہ کو جائز کہتے تھے، پھر آپ سے اس کے بارے میں رجوع بھی ثابت ہے، لہٰذااب نکاح متعہ کے حرام ہونے پر اجماع ہو چکا ہے۔ جو بھی اس کا مرتکب ہو گا، مشہور مذہب کے مطابق اسے رجم کیا جائے گا۔"

 ابتداء میں سیدنا عبدا للہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  متعہ کو جائز کہتے تھے، لیکن بعد میں نسخ کا علم ہونے پر رجوع کر لیا تھا، جیسا کہ ربیع بن سبرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

مَا مَاتَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَتّٰی رَجَعَ عَنْ ہٰذِہِ الْفُتْیَا .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  اس فتوے سے رجوع کر کے ہی فوت ہوئے۔"

(مسند أبي عوانۃ : ٢/٢٧٣، ح : ٢٣٨٤، وسندہ، صحیحٌ، طبع جدید)

یہاں کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب متعہ غزوہئ خیبر میں حرام ہونے کے بعد فتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لیے دوبارہ جائز ہوا تھا اور پھر ابدی طور پر حرام ہوا تھا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کو چاہیے تھا کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  کو متعہ کے حوالے سے فتح مکہ والی حرمت ہی ذکر کرتے، نہ کہ غزوہئ خیبر والی، جو بعد میں منسوخ بھی ہو گئی تھی؟
اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
وَإِمَّا أَنْ یَّکُونَ الْإِذْنُ الَّذِي وَقَعَ عَامَ الْفَتْحِ لَمْ یَبْلُغْ عَلِیًّا، لِقِصَرِ مُدَّۃِ الْإِذْنِ، وَہُوَ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ .
ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جو اجازت دی گئی تھی، وہ بہت مختصر عرصے، یعنی صرف تین دن کے لیے تھی، اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کو اطلاع نہ ہو سکی ۔"

(فتح الباري في شرح صحیح البخاري : ٩/١٧١)

نیز فرماتے ہیں

یُمْکِنُ الِانْفِصَالُ عَنْ ذٰلِکَ بِأَنَّ عَلِیًّا لَّمْ تَبْلُغْہُ الرُّخْصَۃُ فِیہَا یَوْمَ الْفَتْحِ، لِوُقُوعِ النَّہْيِ عَنْہَا عَنْ قُرْبٍ .
اس اشکال کو دور کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کو فتح مکہ کے دن متعہ کے بارے میں اجازت معلوم نہ ہو سکی، کیونکہ فوراً ہی تو دوبارہ متعہ سے منع فرما دیا گیا تھا۔"

 

(فتح الباري : ٩/١٦٩)

 

 

Search site