آپ کے ائمہ کے پاس جو جبرئیل علیہ السلام سے بڑا روح القدس موجود ہے جیسا کہ الکافی کی روایات میں ہے، اس کا کام بتا دیں.



اگر بارہ ائمہ کے ناموں کی تصریح حضور علیہ السلام نے کر دی تھی ، تو پھر اس بدا کی کیا حاجت تھی؟

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي الْحَسَنِ ( عليه السلام ) بَعْدَ مَا مَضَى ابْنُهُ أَبُو جَعْفَرٍ وَ إِنِّي لَأُفَكِّرُ فِي نَفْسِي أُرِيدُ أَنْ أَقُولَ كَأَنَّهُمَا أَعْنِي أَبَا جَعْفَرٍ وَ أَبَا مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْوَقْتِ كَأَبِي الْحَسَنِ مُوسَى وَ إِسْمَاعِيلَ ابْنَيْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ( عليه السلام ) وَ إِنَّ قِصَّتَهُمَا كَقِصَّتِهِمَا إِذْ كَانَ أَبُو مُحَمَّدٍ الْمُرْجَى بَعْدَ أَبِي جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) فَأَقْبَلَ عَلَيَّ أَبُو الْحَسَنِ قَبْلَ أَنْ أَنْطِقَ فَقَالَ نَعَمْ يَا أَبَا هَاشِمٍ بَدَا لِلَّهِ فِي أَبِي مُحَمَّدٍ بَعْدَ أَبِي جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) مَا لَمْ يَكُنْ يُعْرَفُ لَهُ كَمَا بَدَا لَهُ فِي مُوسَى بَعْدَ مُضِيِّ إِسْمَاعِيلَ مَا كَشَفَ بِهِ عَنْ حَالِهِ وَ هُوَ كَمَا حَدَّثَتْكَ نَفْسُكَ وَ إِنْ كَرِهَ الْمُبْطِلُونَ وَ أَبُو مُحَمَّدٍ ابْنِي الْخَلَفُ مِنْ بَعْدِي عِنْدَهُ عِلْمُ مَا يُحْتَاجُ إِلَيْهِ وَ مَعَهُ آلَةُ الْإِمَامَةِ .

راوی کہتا ہے کہ میں امام علی نقی علیہ السلام کے فرزند ابو جعفر کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ابو جعفر اور امام حسن عسکری کا واقعہ اس وقت بالکل ویسا ہی ہے جیسا امام موسٰی کاظم اور اسماعیل اور فرزندان امام جعفر صادق کا تھا اور جو قصہ خوردی بزرگی کا وہاں تھا وہی یہاں ہے(یعنی جس طرح اسماعیل امام موسی کاظم سے عمر میں بڑے تھے اسی طرح ابو جعفر امام حسن عسکری سے بڑے ہیں) کیونکہ ابو جعفر کے بعد امام حسن عسکری امام ہوئے پھر امام علی نقی علیہ السلام، قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں۔ مجھ سے فرمانے لگے اے ابو ہاشم خدا نے ابو جعفر کے بعد اپنا حکم ظاہر کیا ابو محمد(حسن عسکری) کےبارے میں جس کی معرفت لوگوں کا نہ تھی یہ ایسا ہی جیسا کہ اسماعیل کے مرنے کے بعد موسٰی( کاظم) کے لیے ظاہر ہوا تھا۔ یہ ایسا ہی جیسا کہ میں نے تم سے بیان کیا۔ اگرچہ باطل پرست اس کو پسند نہ کریں ابو محمد میرا بیٹا میرے بعد میرا جانشین ہے اس کے بعد وہ تمام علم جس کی طرف احتیاج ہوتی ہے اور اس کے پاس سامان امامت ہے۔

اصول کافی، ج 1 ، ص 274، کتاب الحجت

 

 

علي بن إبراهيم عن أبيه عن ابن أبي عمير عن عاصم بن حميد عن محمد بن قيس عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: قضى أمير المؤمنين (عليه السلام) في رجل شهد عليه رجلان بأنه سرق فقطعت يده حتى إذا كان بعد ذلك جاء الشاهدان برجل آخر فقالا هذا السارق وليس الذي قطعت يده وإنما شبهنا ذلك بهذا فقضى عليهما أن غرمهما نصف الدية ولم يجز شهادتهما على الآخر محمد بن قیس نے امام باقر سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ امیر المومنین جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شخص کے ہاٹھ کاٹنے کا حکم دیا جس کے بارے میں دو گواہوں نے چوری کرنے کی گواہی دی تھی۔ پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد دونوں گواہ واپس لوٹے اور ایک دوسرے شخص کو ساتھ میں لے آئے اور کہنے لگے، اصل چور یہ ہے اور وہ نہیں جس کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔ اور ان دونوں پر یہ معاملہ مشتبہ ہو گیا تھا۔ پس آپ نے ان دونوں کے بارے میں فیصلہ دیا کہ وہ نصف دیت ادا کریں گے اور ان دونوں کی گواہی اس دوسرے شخص کے بارے میں نہیں مانی جائے گی۔ تہذیب الاحکام ج 6 ص 261 مجلسی نے ملاذ الاخیار ج 10 ص 126 پر اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ امام کا علم غیب کہاں غائب تھا؟

 

 

 

Search site